• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسب معمول میں ٹہلتا ٹہلتا اسکول سے گھر پہنچا، ابھی میں نے بستہ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ کمرے سے بہنوں کی روہانسی اور غصیلی آوازیں میری سماعت سے ٹکرائیں جو شکایتوں کی پٹاری کھولے ابو کو میرے خلاف کرنے میں مصروف تھیں۔ ابو آج پھراس نے ہمارے پیسے نہیں دئیے۔ آج ہم اس کو نہیں چھوڑیں گے آپ بیچ میں نہیں آئیے گا۔ یہ الفاظ سنتے ہی جیسے میری جان ہی نکل گئی اور بڑھتے ہوئے قدم خود کار طر یقے سے رک گئے۔ میں نے سوچا ،لو جی آج تو مارے گئے اور زیر لپ ’’آل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو ‘‘کا ورد کرنے لگا ۔ جیسے ہی بہنوں نے مجھے دیکھا تو ان پر جلالی کیفیت طاری ہو گئی اور کہنے لگیں ادھر آے تجھے ہم سید ھا کرتے ہیں۔ 

سرسری طور پر میں نے اپنا جائزہ لیا، مگر کوئی ٹیڑھا پن نظر نہیں آیا۔ آج ہمشیرائیں کچھ زیادہ ہی طیش میں لگ رہی تھیں۔ خطرہ بھانپتے ہی میں نے معصومیت اور مسکینت کا لبادہ اوڑھا کہ شاید رحم آجائے ،مگر مخالف پارٹی کی جانب سےحکم جاری ہو ا کہ فوراً سے پہلے ہمارے پیسے دو۔ اب میں ان کو کیسے بتاتا کہ ان کے پیسے تو آلو چھولے شربت اور لاٹری والوں کے غلک میں آرام فرمارہے ہوں گے۔ میری طویل خاموشی سے ان کو اندازہ ہو گیا کہ ان کے پیسے ہڑپ کیے جاچکے ہیں۔

غصے سےبھری شیرنیاں میری جانب لپکی ہی تھیں کہ میں بھاگ کر ابو کے پیچھے چھپ گیا۔ ابو نے مجھے ممکنہ جملے سے بچاتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہوئے مذاکرات کروانے کی کوشش کی تو وہ بولیں آپ کو کتنی بارکہا ہے کہ اس کو ہمارے پیسے مت دیا کریں یہ سارے پیسوں سے خود چیزیں لے لیتا ہے۔ ابو نے کہا، چلو خیر ہے کوئی بات نہیں چھوٹا بھائی ہے۔ ہاں ہاں چھوٹا ہے ،بہنوں نے تیش میں آکر کہا آپ نے ہی سر پہ چڑھا رکھا ہے اس کو،بالآخر ابو نے ان کو پیسے دئیے اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ آئندہ تمہارے پیسے اس کو نہیں دوں گا تو ہی جان خلاصی ہوئی میری۔

پرانا دور تھاکل کی طرح مجھے یاد ہے۔ ہم چاروں کو اسکول جانے سے پہلے پانچ روپے ملتے تھے۔چھوٹا ہونے کی وجہ سے دو رو پے میرے ہوتے تھے اور باقی ایک ایک روپیہ تینوں بہنوں کا۔ اکثر ابو کے پاس کھلے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پانچ روپے کا نوٹ مجھے دیا جاتا ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ۔اگر نوٹ بہنوں کو دے کر کہا جاتا کہ دو روپے اس کو دے دینا تو میں اڑ جاتا اور ہر روز اسکول جانے سے ہی انکار کردیتا۔ 

اس لیے مجبوراً پیسے میرے ہاتھ میں تھمائے جاتے۔ میں ان کو یقین دلاتا کہ ان کے پیسے انہیں مل جائیں گے۔ میری معصوم بہنیں ہر روز میری ہر بات پر یقین کر لیتیں ،خیر یہ ان کی مجبوری تھی۔ اسکول کے باہر پھیری والوں اور رنگ بر نگے پتھاروں کو دیکھ کر بسا اوقات نیت میں کھوٹ آجا تا اسی لیے اکثر ان کے پیسے بھی ہڑپ کر جاتا۔

کچھ عرصہ بعد بہنوں کا رجحان دینی علوم کی طرف ہوگیا۔ اب میں اسکول اکیلا جاتا ،یوں میرا ڈنڈی مارنے کا رستہ بند ہوگیا۔ کبھی کبھی ان کو کتابیں منگوانی ہوتیں تو پھر میری منتیں کرتیں اور میں انکاری ہوکر پہلے خرچہ پانی کا تقاضا کرتا ، ایک روز انہوں نے کہا دیکھو عالم دین اللہ کو بہت عزیز ہوتے ہیں ہمیں کتابیں لا کر دو گے تو روزِ قیامت تمہاری بھی سفارش کریں گی اللہ سے.میں نے کچھ سوچ بچار کر کے نتیجہ اخذ کیا تو یہ گھاٹے کا سودا ہر گز نہ تھا۔جنت کی خواہش پہ میں نے ان کو بغیر خرچے پانی کے کتابیں لا کر دینی شروع کر دیں۔وقت پر لگا کر اُڑتا گیا۔ 

ہنسانے، رلانے، شکایتیں لگانے، تنگ کرنے اور چھیڑنے کا سلسلہ یکدم جانے کب، کیسے، کیوں کر ختم ہوا، پتا ہی نہ چلا ۔ایک ایک کر کے سب بہنیں اپنے گھروں کی ہوگئیں۔ اس روز احساس ہوا کہ گھر کی ساری رونقیں، چہل پہل، قہقہے، مسکراہٹیں اور خوشیاں بہنوں بیٹیوں کے طفیل ہی ہوتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد تو گھر صرف شہرِ خموشاں کا منظر پیش کرتا ہے اور ویرانیاں ہی محوِ رقص رہتیں۔

بچپن میں ان کے حصے کا جو ایک ایک روپیہ کھاتا رہا اب ان کو زبردستی دینے پڑتے ہیں، مگر اب بہنیں کہتی ہیں کہ، جب چاہیے ہوں گے تو خود مانگ لیں گے، ابھی اپنے پاس ہی رکھو۔ میں کہتا ہوں کہ بچپن میں ایک روپےکے لیے تم سب مل کر مجھے سے لڑتیں اور ابا سے شکایتیں کرتی تھیں۔ اب میں خود دیتا ہوں تو نخرے کیوں دیکھتی ہو ۔ بچپن کی اُس کرپشن کی بھرپائی اب پوری زندگی ہم پہ فرض بھی ہے اور قرض بھی۔