پشاور (نسرین جبین)دنیا بھر میں سانس کی بیماری سی او پی ڈی copd اموات کی تیسری بڑی وجہ بن گئی ہے۔ہارٹ اٹیک، سٹروک اور سی او پی ڈی copd اموات کی شرح میں اضافے کے تین بڑے موجب ہیں خواتین میں اس کی شرح 49فیصد اور مردوں میں61ہےسی او پی ڈی کا مرض لاحق ہو نے کی اہم وجہ سگریٹ نوشی ہے جبکہ خواتین میں اس قسم کےمریضوں میں لکڑیاں جلانے اور گوبر جلانے سے پیدا ھونے والا دھواں اور فضائی آلودگی بھی اس کا موجب بن رہا ھے سی او پی ڈی copdبزرگوں کی بیماری ھے بچوں میں اس کی شرح بہت کم ھے کئی لوگوں کو پتا نہیں ھو تا کہ انہیں یہ بیماری لاحق ھے، اس کی علامات میں کھانسی کا بار بار آنا،سیٹی کا بجنا، ریشہ نکلنا چلتے پھرتے سانس میں رکاوٹ اور سانس کا پھول جاناشامل ھےان خیا لات کا اظہار سی او پی ڈی کے عالمی دن کے حوالے سے ہائی نون لیبارٹریز کے زیر اہتمام پشاور میں مقامی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار کے شرکا نے کیا تقریب میں ڈاکٹرز، ٹی ایم اوز چیسٹ سو سائٹی کے عہدیداران اورممبران نے شرکت کی اس موقع پرمہان خصوصی پروفیسرڈاکٹر ارشد جاوید نے کہا کہ تمباکوکئی اشکال میں استعمال ہوتی ہےسگریٹ تمباکو حقہ، شیشہ پینا، نسوار بھی شامل ھے اسے اگر 25 سال جاری رکھا جائے تو سی او پی ڈی کا مرض لاحق ھونے کا خدشہ بڑھ جاتا ھے جبکہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی شرح بھی بڑھ جاتی ھے فضائی آلودگی، گاڑیوں کا دھواں، گھریلو آلودگی اس بیماری کا باعث بنتی ھے جس کا سدباب لازمی ھے انھوں نے کہا کہ سردیوں میں اس کی شرح زیادہ ہےجو ہر سال بڑھتی جاتی ھے تنگی تنفس ہر سال کھانسی اورزکام ھو رہا ھے اور عام آدمی سے زیادہ دیر تک رہتا ھے تو ڈاکٹرز سے تشیص کرانی لازمی ہوجاتی ھے تا کہ بروقت علاج ناہو نے اور جلدی تشخیص کا نقصان یہ ہوتاہے کہ سانس کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں اور سانس لینے میں دشواری رہی ھےپاکستان چیسٹ سوسائٹی کے خیبر پختون خوا کے صدڑ ڈاکٹر ظفر اقبال نے اس مرض کی بیماری کی تمام تر تشخیص اور علاج سے متعلق معلومات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ انھوں نے ڈاکٹرز اور ٹی ایم اوز کو تفصیلی طور پر بتایا کہ اس مرض کے کس سٹیج پر کون سا علاج کر یں کون کون سے ٹیسٹ اور ادویات مریضوں کو دی جائیں انھوں نے سیمنار کے شرکا کو اس مرض سے آگاہی کو عام کرنے کی استعدا کی تاکہ لوگوں کو معلومات فراہم ھو سکے اور نا صرف اس سے بچاو ممکن کو سکے بلکہ بروقت علاج ھو سکے اور زندگی گزاربنا آسان ھو سکے جبکہ تکلیفات میں بھی کمی آسکے ۔اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹرسعدیہ اشرف نے کہا کہ اگر خواتین دو گھنٹےبند کمرے میں جہاں ہوا کا مناسب گزر نا ھو وہاں کھان پکانا کریں تو انکوبھی سگڑیٹ نوشی جیسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے گھریلو آلودگی کا نامم دیا گیا ھے پروفیسر ڈاکٹر مختیار زمان نے کہا کہ اینٹوں کی بھٹیوں میں جو ایندھن اور ربڑ جلائی جاتی ھے وہ صرف رنگ بدلنے اور اینٹوں کی اچھی کوالٹی ظاہر کرنے کے لیے انکو زرد رنگ دینے کا دھوکہ دیا جاتا ھے اور یہ زہر ہوا میں چھوڑا جا رہا ھے اورگاڑیوں کا دھواں بھی پھیپھڑوں میں جا کر انفیکشن کرتا ھے آبادی کا تناسب بڑھ رہا ھے جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں فضائی آلودگی پر چیکنگ ک اورکنڑول نہیں ہے۔