• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (انصار عباسی) نومبر کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر حکومت کیلئے صورتحال انتہائی پریشان کن تھی۔ 

حکومت کیلئے کچھ عناصر نے اس قدر پریشانی پیدا کر دی تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف کو مصر میں ماحولیاتی تبدیلی کی انٹرنیشنل کانفرنس سے شرکت کے بعد لندن جانا پڑا۔

 نون لیگ کے دو سینئر رہنماؤں (خواجہ آصف اور ملک احمد خان) کو خصوصی طور پر کہا گیا کہ وہ لندن میں میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں شامل ہونے کیلئے آئیں۔ اُس وقت ایک باخبر سرکاری ذریعے نے دی نیوز کو بتایا تھا کہ ’’حالات اچھے نہیں ہیں۔‘‘ 

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ آخر تک نئے آرمی چیف کا نام سامنے نہیں لائیں گے۔

 تاہم، اس نمائندے کو بتایا گیا تھا کہ کچھ عناصر حکومت کو مستقل اس بات پر قائل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے کہ توسیع کا بندوبست کریں۔ 

ذریعے کے مطابق، حتیٰ کہ ان عناصر میں سے ایک شخص نے تو وزیراعظم سے کہا کہ وہ جنرل باجوہ کو توسیع کیلئے راضی کریں۔ 

تاہم، وزیراعظم نے جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب، کہا گیا کہ مارشل لاء کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ اُن دنوں میں دی نیوز جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع کے ساتھ رابطے میں تھا۔ 

ان ذرائع نے اس نمائندے کو یقین دہانی کرائی تھی کہ باجوہ 29؍ نومبر کے بعد کام نہیں کرنا چاہتے۔ 

ان ذرائع نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ عہدے کیلئے اہل تمام سینئر ترین جرنیلوں کے نام وزیراعظم کو پیش کیے جائیں گے تاکہ وہ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کیلئے نام منتخب کریں۔ نون لیگ کے کیمپ میں نواز شریف وزیراعظم اور دیگر رہنماؤں سے کہہ رہے تھے کہ جو بھی ہو رہا ہے اس سے مکمل طور پر لاتعلقی دکھائیں اور باتیں نظر انداز کریں۔ ان دنوں میں حکومت اور نون لیگ کی سینئر قیادت کو یہ مشورے بھی دیے جا رہے تھے کہ آرمی چیف کس کو لگانا چاہئے۔

 لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو آرمی چیف لگانے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا۔ لیکن نواز اور شہباز شریف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔یہ بھی کہا گیا کہ کچھ عرصہ قبل میاں نواز شریف نے توسیع نہ لینے کا اعلان کرنے پر جنرل باجوہ کو تعریفی پیغام بھی بھیجا تھا۔ 

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف نے سابق آرمی چیف تک پیغام پہنچایا تھا کہ ان کا اصل ترکہ یہ ہوگا کہ وہ با عزت انداز سے ریٹائر ہو جائیں اور آئین کے مطابق حکومت کو نیا آرمی چیف لگانے دیں۔

 نومبر کے پہلے ہفتے میں حکومت کو کچھ عناصر نے تجویز دی تھی کہ جنرل باجوہ کو توسیع دے کر جنرل ساحر کو وائس چیف لگا دیا جائے۔ اس تجویز میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وزیراعظم حکومت تحلیل کر دیں اور سات ماہ کیلئے عبوری حکومت لائیں تاکہ معاملات کو استحکام ملے جس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں۔

 سرکاری ذریعے نے اس نمائندے کو بتایا کہ اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا گیا، ان عناصر نے یہ تجویز بھی دی کہ حکومت اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نواز شریف کی واپسی میں مدد فراہم کی جائیگی۔ نون لیگ کی قیادت کو یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ذرا تاخیر سے کرائے جائیں گے تاکہ نون لیگ کو دو تہائی اکثریت سے جیتنے کا موقع دیا جا سکے۔

 سرکاری ذریعے کے مطابق، ان تمام پیغامات پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ لندن میں جب نواز اور شہباز شریف کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسی کسی تجاویز پر دھیان نہیں دیا جائے گا چاہے حکومت کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ شدید پریشانی کے اُن دنوں میں نون لیگ کی پالیسی یہ تھی کہ تصادم سے گریز کیا جائے اور وقت گزاری کی جائے تاکہ جب درست موقع آئے تو حکومت نیا آرمی چیف مقرر کر دے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت ان عناصر کا نام سامنے لائے گی یا نہیں جنہوں نے اس طرح کی پریشانی اور کنفیوژن پیدا کیا وہ بھی اُس وقت جب جنرل باجوہ کے ریٹائرمنٹ کے اعلان پر نیا آرمی چیف لگانے کیلئے تیار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شریف برادران کے علاوہ خواجہ آصف اور ملک محمد خان کو علم ہے کہ اُن دنوں میں کیا کچھ ہو رہا تھا۔

اہم خبریں سے مزید