• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسکاٹ لینڈ میں گزشتہ سال استھما سے ہلاک 96 افراد میں 64 خواتین تھیں

لندن (پی اے) ایک چیرٹی نے انکشاف کیا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں گزشتہ ستال ایستھیما سے مرنے والوں میں تقریباً 70فیصد خواتین تھیں۔ ایستھیما اینڈ الرجی فاؤنڈیشن نے بدھ کو انکشاف کیا کہ سانس کی بیماری سے اموات کی شرح بحران کی سطح پر ہے اور 96 افراد اس حالت سے انتقال کر چکے ہیں۔ چیف ایگزیکٹو مارٹینا چکووما ایزیک نے کہا کہ اس حالت سے مرنے والی خواتین کی خاصی تعداد ارباب اختیار کیلئے کہیں بڑی خطرے کی گھنٹی ہے اعداد و شمار کے مطابق مرنے والے 96افراد میںسے 64خواتین تھیں، جو کل اموات کا 67فیصد ہے۔ گزشتہ دہائی میں سکاٹ لینڈ میں اس عارضے میں مجموعی طور پر 1162اموات ہوئی ہیں۔ مس چکووما ایزیک نے کہا کہ سکاٹ لینڈ میں ایستھما بے قابو ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ گزشتہ برس ہونے والی 96اموات میں سے ہر ایک انسانی صلاحیتوں، فیملیز اور کمیونٹیز کے بڑے پیمانے پر نقصان کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے نصف اموات کو کو بہتر تعلیم، اویئرنیس اور علاج پر کنٹرول کے ذریعے روکا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا خواب ہے کہ کوئی بھی شخص دمہ کا شکار ہو کر نہ مرے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ اس کرائسس سے نمٹنے میں مدد کیلئے سلوشنز کا ایک مجموعہ سامنے لائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہےکہ ایستھیما سے خواتین کے مرنے کے خدشات دگنے ہوتے ہیں، یہ شواہد پر مبنی ایک مسلمہ ٹرینڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اب تک کوئی بھی اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ مس چکووما نے کہا کہ زہریلی ہوا، چائلڈ پاورٹی اور خراب رہائش ایسے بڑے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے غریب بیک گرائونڈ رکھنے والے بچوں کے ایستھیما دورے کے بعد ہسپتال لائے جانے کے امکان تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایستھیما پالیسی رسپانس کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے جو ناصرف معنی خیز ہو بلکہ وہ بنیادی اسباب کو بھی حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کی زندگی کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور ہمارے تازہ ترین اعداد و شمار سے واضح طور پر یہ سامنے آتا ہے کہ انہیں کیا خطرہ ہے۔ سکاٹ لینڈ میں ایستھیما کیئر اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کہاں رہتے ہیں اور آپ کو کیئر سروسز تک کیا اور کیسی رسائی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کو بہتر کرنا چاہئے۔
یورپ سے سے مزید