اختیار اور اعتبار کے معاملات نے پاکستان کی ریاست میں سیاست کو بہت ہی مشکوک کردیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جو لوگ ملک کو چلا رہے ہیں وہ دروغ گوئی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے نئے سپاہ سالار کے نام پر بہت ہی شور و غل ہوتا رہا۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم پاکستان کے پاس مکمل اختیار تھا مگر انہوں نے جذبہ مروت کی وجہ سے سابق صدر آصف علی زرداری سے بھرپور مشاورت کی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سے بھی رہنمائی چاہی اور بہت زیادہ غور وفکر کے بعد فیصلہ ہوا کہ جب افواج پاکستان کی طرف سے نام آئیں گے تو فیصلہ کیا جائے گا پھر جی ایچ کیو نے چھ جنرلز کے نام وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کردیئے۔ ماضی میں پانچ نام ہوتے ہیں اس دفعہ چھٹا نام آصف علی زرداری کی طرف سے خصوصی طور پر آیا تھا پھر یہ بھی میڈیا میں مشہور ہوا کہ آئندہ کا سپاہ سالار امریکی منشا سے آسکتا ہے، میڈیا کو ایسا اشتہاری بننے کی کیا ضرورت تھی؟ نامور صحافی حضرات بھی اس مسئلہ پر قوم کو تنقید سے نوازتے رہے اور پھر فیصلہ آیا کہ جو سینئر ہے اس کو ہی آئندہ کا سپاہ سالار بنا دیا گیا۔ اس سرکار نے ایک اچھا کام تو کیا۔
29نومبر کا دن پاکستان کی سیاست میں بہت اہم ہوگا ، قمر جاوید باجوہ نے چھ سال کی مدت مکمل ہونے پر اپنی گرفت ڈھیلی کی، اقتدار اور اختیار کی چھڑی نئے سپاہ سالار کے حوالے کی۔ کیا عجیب نظارہ تھا جو ایک جنرل رخصت ہوتے ہوئے اپنا اعتبار ایک نئے سپاہ سالار کے حوالہ کررہا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے جنرل باجوہ کو کئی موقع ملے تھے ،جب آخری دنوں میں انہوں نے خطاب کیا وہ اپنی صفائی پیش کرسکتے تھے مگر انہوں نے غبارِ دل ہی نکالا۔ انہوں نے دوستوں کی وجہ سے ان کے الزامات کو صرف نظر کیا۔ ان پر کئی قسم کے الزامات لگے اور انہوں نے کسی کی بھی صفائی نہ دی، پھر دو ایسے جنرلز نے بھی فوج کی طویل نوکری کو خیر باد کہا جو ان کے بہت قریب تھے۔ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا صرف اس لئے کہ سابق وزیراعظم پر نظر رکھی جا سکے اور ان کی سیاسی مداخلت پرحرف نہ آئے۔ جنرل فیض حمید کو ان سے شدید مایوسی ہوئی اوریہی ان کےاستعفے کا سبب بنی۔
کہانی کا آغاز 2018 کے انتخابات کے نتائج سے شروع ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو اتنے ووٹ ملے کہ وہ سادہ اکثریت کی بنیاد پر سرکار بنا سکتے تھے۔ اس بات کا پتا عمران خان کو ڈھائی سال کے بعدچلااور ذکر خیر کرنے والے جنرل فیض حمید تھے جو عمران خان کا اعتبار حاصل کر چکے تھے اور آئندہ کیلئے نامزد سپاہ سالار تصور کئے جاتے تھے اور یہ بات مسلم لیگ کو قبول نہ تھی اوراس کے سر کردہ افراد بیک وقت جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو نشانہ ستم بناتے رہے۔ جنرل باجوہ کا کمال صبر تھا کہ کسی بات کا برا نہیں مانا۔ جنرل باجوہ اس سیاسی جنگ میں مکمل یکسوئی کے ساتھ شریک تھے اور دوسری طرف عمران خان کو مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔ عمران خان کے دوست بھی امریکی حلقوں میں رسائی رکھتے تھے اور برطانیہ کے کردار کا اندازہ تھا مگر وہ خاموشی سے باجوہ صاحب کے ساتھ چلتے رہے، الزام ہے کہ پھر امریکہ کا حکم نامہ آیا اور جنرل باجوہ کو عمران خان کی رخصتی کا اہتمام کرنا پڑا۔
جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے لگی تو انہوں نے کمالِ فن سے عمران خان کو باور کرایا کہ وہ ان سے متاثر ہیں اور چاہتے ہیں عمران خان پاکستان کوبدل دے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اس سے پہلے جنرل باجوہ کے کئی حکم یا مشورے نظر انداز کر چکے تھے۔ پھر ان کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا چیئرمین ایسا شخص لگایا گیا جو بعد میں عمران خان کے سامنے فریق بن گیا، اگرچہ اس کا نام فوج اور شیخ رشید کی طرف سے آیا تھا مگر یہ سب کچھ کھیل کا حصہ تھا۔ اب سابق صدر زرداری اور میاں نواز شریف کو بتایا گیا کہ آپ ایک ہو جائیں اور باقی کام فوج کرے گی۔ آصف زرداری شطرنج کے بے مثل کھلاڑی ہیں اورپھر جمہوریت نے ایسا فیصلہ دیا کہ عمران خان کے اقتدار کو ختم کروا دیاگیا۔سابق وزیر اعظم نے گزشتہ 20 سال میں خاصا تجربہ حاصل کر لیا تھا اور 2018ء کے الیکشن میں انہیں تجربہ کے مقابلہ پر کم کامیابی ملی تھی مگر جب وہ وزیراعظم بن گیا تو اس کو جلد ہی اندازہ ہوگیا، پھر وہ وبا کے دن تھے۔ عمران خان کا کردار نظر آیا اور وبا سے پاکستان محفوظ رہا اور معیشت میں بھی بہتری نظر آئی۔ یہ سب کچھ پاکستان کے دوستوں اور مہربانوں کو پسند نہ تھا۔ عمران خان اپنی جبری رخصت کے باوجود مقابلہ کر رہا ہے اور اس کی ظاہری وجہ صرف اور صرف عوام کا رویہ ہے اور اس کا مطالبہ انتخابات ہیں۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے، جمہوریت پر سے اعتبار ختم ہو رہا ہے اور جنرل باجوہ کا فرمان ہے پاکستان کی فوج ملکی سیاست میں اب حصہ دار نہ ہوگی، اب جنرل باجوہ خودبھی رخصت ہو چکے ہیں مگر عوام اب بھی پوری طرح مطمئن نہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)