• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ہوم ورک کے بغیر ڈارپ ان پچ یا دوسرے منصوبوں پر غیر ضروری بحث سے اجتناب کیا جائے

پاکستان کو ٹیسٹ کا درجہ ملے ہوئے70سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور آج بھی ہم پچوں کی تیاری کے حوالے سے بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی گراونڈز پر ہوم ٹیم نے آسٹریلیا، انگلینڈ سمیت دنیا کی ہر ٹیم کو شکست دی، چند ماہ سے پاکستان میں پچوں کی تیاری کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ کیوریٹرز کی ساکھ پر سوال اٹھ رہے ہیں تودوسری جانب ایسے آئیڈیاز منظر عام پر لائے جارہے ہیں جن پر عمل کرنا شائد ممکن نہیں ہے۔

رمیز راجا نے چیئر مین بننے کے بعد ڈراپ ان پچوں کے بارے میں ان کے خیالات حقائق کے منافی ہیں۔ ڈراپ ان پچیں عام طور پر ان ملکوں میں بچھائی جاتی ہیں جہاں ایک گراونڈ پر دوسرے کھیل بھی ہوتے ہوں۔ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ایک بار پھر پچ کی تیاری اور ڈراپ ان پچوں کی بازگشت سنائی دی۔پنڈی کی بیٹنگ کے لئے سازگار پچ کے بعد ملتان میں بالکل مختلف پچ سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ اگر نیت صاف ہو اور حکمت عملی جارحانہ ہو تو اچھی پچ بن سکتی ہے۔ دنیا کی ہر ٹیم ہوم ایڈوانٹیج لیتی ہے، اچانک پرتھ سے مٹی منگوا کر یہ کہنا کہ پاکستان میں آسٹریلیا جیسی پچ بنالی جائے تو بظاہر ایسا مشکل ہے۔

بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ہم نے ایسی کوئی بحث نہیں سنی۔پاکستان میں ہر سال پچ کو ایشو بناکر توجہ ہٹانا دانشمندی نہیں۔ پاکستان کے پاس اس وقت دنیا کے بہترین فاسٹ بولرز ہیں ، ہمارے تین بڑے فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث روف ان فٹ ہوگئے ہیں۔ انگلینڈ نے پنڈی ٹیسٹ میں 74رنز سے کامیابی دوسری اننگز میں اپنے فاسٹ بولروں کی بدولت حاصل کی۔ دوسری اننگز میں نو وکٹ فاسٹ بولروں کو ملے، یہ ٹیسٹ میچ پہلے تین روز کے دوران ڈرا کی طرف جاتا دکھائی دے رہا تھا چوتھے روز اچانک دلچسپ موڑ اختیار کر گیا اور ایسا انگلینڈ کی جانب سے کی گئی دلیرانہ ڈیکلیریشن کے باعث ہوا۔

آخری دن انگلینڈ کی جانب سے دن کے آغاز سے پاکستانی بیٹرز پر خوب دباؤ ڈالا گیا اور فیلڈ پر کیے گئے مختلف منصوبوں کے ذریعے پاکستان کی مزاحمت کو محدود کرکے آخری لمحات میں انگلینڈ کو فتح ملی۔ انگلینڈ نے آخری مرتبہ جب دسمبر 2000 میں کراچی ٹیسٹ جیتا تھا تو اس وقت بھی یہ میچ پانچویں روز شام تک جاری رہا تھا اور تب بھی پاکستان کی منفی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں انگلش فاسٹ بولرز اولی رابنسن اور جیمز اینڈرسن نے بہترین ریورس سوئنگ کا استعمال کرتے ہوئے چار چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ چوتھے روز انگلش ٹیم کے کپتان بین اسٹوکس نے اننگز ڈیکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاید ہی کوئی ایسی ٹیم ہو جو ایسی پچ پر اس طرح کا فیصلہ کر پاتی۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے راولپنڈی کی مردہ پچ کے باوجود میچ میں نئی جان بھر دی۔ پاکستانی بیٹسمین بھی میچ کے اہم موقعوں پر آؤٹ ہوتے گئے، بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کا کوئی واضح منصوبہ بھی نظر نہیں آیا۔

پاکستان کی جانب سے فاسٹ بولرز کے خلاف محتاط اور اسپنرز کے خلاف جارحانہ انداز اپنانے کے پلان کے بعد انگلینڈ نے ا سپنرز کی بجائے فاسٹ بولرز کو ہی لمبے اسپیلز دینا شروع کیے پاکستانی بلے بازوں کے پاس ان کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ سلمان آغا اور اظہر علی دونوں ہی اولی رابنسن کی ریورس سوئنگ کا نشانہ بنے اور پھر پاکستانی ٹیل اینڈرز پر بھی تجربہ کار بولنگ اٹیک کے سامنے بے بس ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر انگلینڈ کو اس ٹیسٹ کو ایک انتہائی مردہ پچ پر جیتنے پر مبارک باد دی جا رہی ہے۔ اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انگلینڈ کی جانب سے جس طرح ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جا رہی ہے وہ آئندہ اس حوالے سے راستے کا تعین کرے گی۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ انگلینڈ کی تاریخی فتوحات میں سے ایک ہے اور پاکستان کے ہوم گراؤنڈ پر جا کر اسے ہرانا خوش آئند بات ہے۔ جمی اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ سب سے بہترین نہیں تو کم از کم ان بہترین فتوحات میں سے ایک ہے جن کا میں حصہ رہا ہوں۔ 

اس مرتبہ 17 سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم کا راولپنڈی میں استقبال ایک ایسی پچ سے کیا گیا جسے پاکستانی مداحوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے اور اسے ’پچ کے نام پر سڑک‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے روز انگلش بیٹرزکی جانب سے ریکارڈ 500 رنز سے زیادہ کا اسکور بنانا تھا۔ اس میں کیوی کپتان برینڈن میکالم کے بطور انگلش کوچ بننے کے بعد سے انگلینڈ کے بیٹسمینوں کا جارحانہ انداز تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی اس میں پچ کے مردہ پن کا بھی عمل دخل ہے جس کے باعث پاکستانی بولرز کو بالکل بھی مدد نہیں مل سکی۔

عام طور ٹیسٹ میچوں میں پہلے روز پچ فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ہوتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ یہ اسپنرز کے لیے بہتر ہونا شروع ہوتی ہے۔ تاہم راولپنڈی کی پچ پر فاسٹ بولرز کی گیند نہ ہی سیم ہوتی دکھائی دی اور فاسٹ بولرز کو صرف پرانی گیند سے کچھ وقت کے لیے ریورس سوئنگ کی سہولت میسر آئی۔ پچ کا تنازع کھڑا کرکے ہم نے اپنے سسٹم پر سوال اٹھایا ہے، پہلے ٹیسٹ میں چار نئے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ دی گئی اور ڈومیسٹک میں سب سے زیادہ43 وکٹیں لینے والے ابرار احمد کو فارم کے باوجود ٹیسٹ نہ کھلا کر فاش غلطی کی گئی۔

ابرار احمد کو جب موقع ملا تو اس نے ڈیبیو پر 11 وکٹ لے کر ثابت کر دکھایا کہ پنڈی میں اس نہ کھلانا عقل مندی نہیں تھی۔ پی سی بی چیئرمین رمیز راجا نے نے پہلے پاکستان میں ڈراپ ان پچز کی بات کی تھی تاہم آئیڈیا کو کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ آسٹریلیا نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا تو پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں ایسی پچز تیار کی گئیں جہاں رنز بنانا آسان جبکہ بولرز کے لیے بہت زیادہ مشکلات تھیں۔

رمیز راجا نے ان دونوں پچز کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ تحفے کے طور پر تو نہیں دے سکتے تھے، ہمیں ہوم ایڈوانٹج کا بھی خیال رکھنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ہوم ایڈ وانٹیج کا خیال ضرور رکھے لیکن ہوم ورک کے بغیر ڈراپ ان پچ یا دوسرے منصوبوں پر غیر ضروری بحث سے اجتناب کیا جائے۔ اچھی پچ کی کوشش ضرور کی جائے لیکن اچھی کرکٹ ہی ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید