• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گُڑ چینی سے بہتر، اسے روایتی طریقے سے کیسے بنایا جاتا ہے؟

گنے کا رس نکالنے کے بعد اسے کئی مرحلوں سے گزار کر گُڑ تیار کیا جاتا ہے/ فوٹو جنگ
گنے کا رس نکالنے کے بعد اسے کئی مرحلوں سے گزار کر گُڑ تیار کیا جاتا ہے/ فوٹو جنگ

موسم سرما میں جہاں لوگ خشک میوہ جات اور گرم غذاؤں کا استعمال بڑھا دیتے ہیں، وہیں صوبہ سندھ کے باسی روایتی طریقوں سے گنے کا رس نکال کر اس سے گڑ تیار کرتے ہیں، بظاہر یہ ایک سادہ سا عمل لگتا ہے مگر اس کو انجام دینا کسی ماہر کے بس کی ہی بات ہے۔

شوگر ملز مالکان کی جانب سے مناسب ریٹ نہ ملنے پر سندھ بھر میں اب چھوٹے کاشتکار گنا ملز کو فروخت کرنے کے بجائے مقامی سطح پر گڑ تیار کرنے کی چھوٹی فیکٹریاں (چیچڑے) لگا کر اچھا منافع حاصل کرتے ہیں۔

سرد موسم کی آمد پر حیدرآباد سے میرپورخاص، مورو، ٹنڈو محمد خان یا پھر سندھ کے دیگر شہروں کی جانب سفر کریں تو ہمیں مختلف مقامات پر گڑ بنانے کے یہ چیچڑے نظر آئیں گے، ان مقامات پر پکتے گڑ کی مہک لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور لوگ بڑی خوشی سے اس سوغات کی خریداری کرتے ہیں۔

گڑ تیار کرنے والے اِن کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گنے کا رس نکالنے کے بعد اسے کئی مرحلوں سے گزار کر گُڑ تیار کیا جاتا ہے، یہ دیسی طریقہ شہریوں کے لیے منفرد ہوتا ہے اور اسی سلسلے میں وہ گڑ کی خریداری کیلئے ان کے پاس آتے ہیں۔

کسان گڑ کی تیاری کیلئے گنے کے رس کو ابال رہے ہیں۔
کسان گڑ کی تیاری کیلئے گنے کے رس کو ابال رہے ہیں۔

گڑ بنانے والے یہ چھوٹے کاشتکار گنے کا رس نکالنے کے بعد بڑے پتیلے میں رکھ کر اسے صاف کرتے ہیں، جس کے بعد رس کو آگ پر کئی گھنٹے پکایا جاتا ہے۔ رس کو پکانے کے بعد پیسٹ کو لکڑی سے بنے چوکٹھے میں ڈالا جاتا ہے جہاں 15 منٹ تک ٹھندا کرنے کے بعد اس پیسٹ سے گڑ کی ٹکیاں (پیسیاں) بنا کر فروخت کرنے کے لیے سجائی جاتی ہیں، اس سارے مرحلے میں ایندھن کیلئے گنے کی چھلائی سے ملنے والے پھوگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

لوگوں کی پسند، ذائقے و غذائیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گڑ میں ورائٹی لانے کے لیے خشک میوہ جات اور دیسی گھی بھی شامل کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ لال گاجر والا گڑ، براؤن شوگر اور گڑ کا جوس بھی نکالا جاتا ہے جو کہ حکمت کی ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

کاشتکاروں کے مطابق گڑ کی فیکٹری (چیچڑے) لگانے میں لاگت کم اور منافع زیادہ ہونے کے باعث وہ ملز کو گنا فروخت نہیں کرتے۔

گنے کے رس کو ابالنے کے بعد گڑ کی ٹکیاں بنائی جارہی ہیں۔
گنے کے رس کو ابالنے کے بعد گڑ کی ٹکیاں بنائی جارہی ہیں۔

مقامی کاشتکار نے نمائندہ جنگ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیمیکل کے بغیر خالص گڑ کی تیاری کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں ہمارے پاس آتے ہیں۔

دوسری جانب بڑی فیکٹریوں میں تیار ہونے والے گڑ میں کیمیکلز کے استعمال کی وجہ سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں اور لوگ مارکیٹ کا گڑ خریدنے سے اجتناب کرتے ہیں۔


کاشتکاروں کے مطابق ایک ٹن گنے سے تقریباً 100 کلو گرام تک چینی تیار ہوتی ہے لیکن اگر گڑ کی بات کی جائے تو ایک ٹن گنے سے 150 کلو تک گڑ بن جاتا ہے جو کہ 40 سے 50 فیصد زیادہ پیداوار ہے۔

ماضی میں کاشتکار اپنی زرعی زمین پر ہی چیچڑے لگاتے تھے جہاں گنے کی کٹائی کے بعد اس سے رس نکالنے کیلئے چیچڑا بیلوں کی مدد سے چلایا جاتا تھا لیکن اب یہ کام مشین اور جنریٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہر میں 170 روپے کلو ملنے کے باوجود گڑ میں کیمیکل شامل کیا جاتا ہے جس سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں اور اسے دودھ کے ساتھ پکانے کی صورت میں دودھ بھی خراب ہوجاتا ہے لیکن مقامی سطح پر تیار کردہ اس گڑ میں خالص اجزا شامل ہونے کے علاوہ 130 روپے سے 150 روپے فی کلو تک باآسانی مل جاتا ہے۔

مہنگائی کے اس دور میں جہاں چینی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں وہیں لوگ سرد موسم میں اس کا استعمال گھٹا کر اس کی جگہ گڑ کا استعمال بڑھا دیتے ہیں۔

خریداروں کا کہنا ہے کہ چینی کے مقابلے میں خالص گڑ انسانی جسم کیلئے غذائیت کے ساتھ ساتھ انتہائی مفید بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ موسم سرما میں اسے بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں۔

مقامی خریداروں کے مطابق سردیوں میں گڑ کی بنی چائے اور گڑ کو دودھ میں شامل کرکے اس کے استعمال کا مزا ہی منفرد ہوتا ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید