٭…توقیر تقی…٭
اک شام یوں بھی جشن نمو، ہوکے رہ گیا
دل اپنا جونہی دھڑکا، لہو ہوکے رہ گیا
اک تو کہ اپنے آپ سے، باہر نہ آسکا
اک میں کہ وجد شوق میں، تو ہو کے رہ گیا
اک شاخِ احتیاط سے، گرنے کی دیر تھی
اپنا بدن ہی جیسے عدو، ہوکے رہ گیا
اندر کی خامشی کو کہیں دفن کرکے میں
گھر میں گیا تو نعرئہ ہو، ہو کے رہ گیا
خوشبو کہاں سے پھوٹے کہ اے سوزنِ خزاں
پھولوں کا چاک چاک رفو، ہوکے رہ گیا
سورج، سروں تک آنے کی افتاد، کیا پڑی
توقیر، سرد جھونکا بھی لُو ہو کے رہ گیا
٭…شبیر نازش…٭
چہرہ، کوئی بو آنکھ میں ٹھہرا، نہ پھر کبھی
دل نے کسی بھی شخص کو چاہا، نہ پھر کبھی
روٹھا ذرا سی بات پہ، اٹھ کر چلا گیا
ایسا لگا کہ لوٹ کے آیا نہ پھر کبھی
کچھ یوں ملا تپاک سے، بس عشق ہوگیا
وہ اجنبی تھا، کون تھا، سوچا نہ پھر کبھی
اُس نے بطورِ تحفہ دیا تھا، لباس ہجر
پہنا جو ایک بار، اُتارا نہ پھر کبھی
دیکھے ضعیف کاندھوں پہ، محنت کے جب نشاں
بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا، نہ پھر کبھی
دولت ملی تو چھن گئی، احساس کی قبا
اُس نے مرا مزاج میں، پوچھا نہ پھر کبھی
نازش گزر چکا تھا، حد اعتدال سے
جانے کہاں گیا، اُسے دیکھا نہ پھر کبھی
(اسماعیل میرٹھی)
…نصیحت…
رے دشمنی کوئی تم سے اگر
جہاں تک بنے تم کرو درگزر
کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غور
جلے جو کوئی اس کو جلنے دو اور
اگر تم سے ہو جائے سرزد قصور
تو اقرار و توبہ کرو بالضرور
بدی کی ہو جس نے تمہارے خلاف
جو چاہے معافی تو کر دو معاف
نہیں، بلکہ تم اور احساں کرو
بھلائی سے اس کو پشیماں کرو
ہے شرمندگی اس کے دل کا علاج
سزا اور ملامت کی کیا احتیاج
بھلائی کرو تو کرو بے غرض
غرض کی بھلائی تو ہے اک مرض
جو محتاج مانگے تو دو تم ادھار
رہو واپسی کے نہ امیدوار
جو تم کو خدا نے دیا ہے تو دو
نہ خست کرو اس میں جو ہو سو ہو
گرمی کا موسم
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
چلی لو اور تڑاقے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمیں کا فرش ہے چھت آسماں کی
نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرا سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی