ٹیکنالوجی کا اُفق مزید وسیع کرنے کے لیے رواں سال سائنس دانوں نے حیران کن دریافتوں اورا یجادات کے بے شمار جھنڈے گاڑے اور علم و حکمت، دریافتوں اور ایجادات کے درخت میں متعدد شگوفے پھوٹے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحقیق اور ایجادات کسی بھی ملک کی ترقی کے دواہم پہلو ہیں۔ ان کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں۔
جدید ایجادات ہی ترقی کے پہیے کی رفتار تیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین نے رواں سال دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل کیمرہ تیار کیا، مختلف کاموں کے لیے روبوٹس تیار کیے گئے۔ ڈرون ،رنگ بدلنے والا اسمارٹ فون اور کاغذی بیٹری تیار کی گئی ،سرجنز کو خودکار تربیت دینے والے ’’اسمارٹ دستانے‘‘اور بہت کچھ منظر عام پر آیا۔2022 ء میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں مزید کیا کیا ہوا، اس کا اندازہ آپ کو ایجادات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر ہو جائے گا۔
موبائل سے کھلنے اور چلنے والی دنیا کی پہلی گاڑی
2022 ء میں چین کی ٹیکنالوجی کمپنی نے جدید ترین گاڑی متعارف کروائی ہے ۔جسے موبائل کی مدد سے کھولا اور چلایا جاسکے گا ۔ یہ دنیا کی پہلی کار ہے جو ہائبرڈ ہے اور کمپنی کے اپنے آپریٹنگ سسٹم ، ہارمنی او ایس استعمال کرتی ہے۔ اس گاڑی میں بلیو ٹوتھ اور ایف ایف سی سپورٹ بھی دی گئی ہے۔
ایف فائیو گاڑی دیگر کے مقابلے میں اس لیے منفرد اور جدید ہے کہ اس کا لاک کھولنے اور اسٹارٹ کرنے کے لیے عام چابی کی طرح ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ہارمنی آپریٹنگ سسٹم والے موبائل کی مدد سے سارے امور انجام دیے جائیں گے۔ڈیجیٹل چابی کو بلیوٹوتھ اور این ایف سی کے ذریعے استعمال کیا جاسکے گا، اگر صارف کا موبائل بند ہوجائے گا تو چابی بھی کام نہیں کرے گی۔
چند سیکنڈز میں رنگ بدلنے والا اسمارٹ فون
رواں برس ایک نجی کمپنی نےایک ایسا اسمارٹ فون بنایا ہے ،جس کی کیسنگ دھوپ پڑنے پر صرف 30 سیکنڈ میں رنگ بدل سکتی ہے ۔اور اس رنگ کو واضح طور پر کیسنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس فون کو ’’سن شائن گولڈ ماڈل ‘‘ کانام دیا ہے۔ عام حالت میں کسینگ کا رنگ زردی مائل سنہرا ہے۔ لیکن رنگ بدلنے والی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ فون میں دیگر شاندار فیچر بھی موجود ہیں۔
اس کے علاوہ اس موبائل میں دو سیلفی کیمرے ہیں جن میں سے مرکزی کیمرہ 50 میگا پکسل اور دوسرا وائڈ اینگل کیمرہ 8 میگاپکسل کا ہے۔ اس میں قریباً ساڑھے چھ انچ کی اسکرین ہے، جس کی ریزولوشن 1080 پکسل اور ساخت اوایل ای ڈی ہے، جس کی اطراف خمیدہ ہے۔
پلگ کے ساتھ دنیا کا سب سے چھوٹا پاوربینک
ایک نجی کمپنی نے اس سال دنیا کا سب سے چھوٹا اور تیز رفتار پاور بینک بنایا ہے ،جس کے اندر پلگ کے ساتھ چارجر بھی نصب ہے۔یہ پاور بینک 30 واٹ کی قوت رکھتا ہے اورتمام اقسام کے اسمارٹ فون اور ٹیبلٹس چارج کرسکتا ہے۔ اس میں 10 ہزار ایم اے ایچ بیڑی نصب ہے جو کئی آلات کو دو سے تین مرتبہ چارج کرسکتا ہے۔
پاوربینک کو’’ اسمارٹ کوبی پروپلگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس طرح یہ اپنے پلگ کی وجہ سے چارجر بھی ہے اور پاوربینک بھی ہے۔ اسمارٹ کوبی 30 واٹ کی بنا پرایک ہی وقت میں دو آلات چارج کرسکتا ہے۔ یعنی یوایس بی سی پورٹ 30 واٹ اور یوایس بی اے 12 واٹ چارجنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
نمک کے ذرّے کے برابر دنیا کی سب سے چھوٹی بیٹری
2022 ء میں جرمن سائنس دانوں نے دنیا کی سب سے چھوٹی بیٹری تیار کی ہے جو دیکھنے میں نمک کے ذرّے کے برابر ہے ۔اسے سب سے پہلے جسم کے اندر موجود مائیکرو بوٹ اور سینسر میں استعمال کیا جائے گا ۔ جنہیں بجلی دینا ایک پرانا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ان بیٹریوں میں پولی میرک، دھاتی اور ڈائی الیکٹرک مٹیرئیل استعمال کئے گئے ہیں۔
یہ سب ایک ویفر پر لگائے گئے ہیں۔ یوں خردبینی بیٹری بیلن نما شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس طرح یہ بیٹری فی مربع سینٹی میٹر 100 مائیکروواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہے اور اندرونی تناؤ کی وجہ سے برقی رو پیدا کرتی ہے۔ سائنسدانوں نے کے مطابق مائیکرو فیبریکیشن کی بدولت یہ بہت ہی باریک سرکٹس کو بجلی فراہم کرسکتی ہے۔طبی استعمال کے ساتھ ساتھ انہیں روبوٹک سسٹم اور انتہائی لچکدار برقیات میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا جرثومہ
رواں سال فرانسیسی اور امریکی سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے بڑا جر ثومہ دریافت کیا ہے ،جس کی جسامت عام مکھی سے زیادہ ہے ۔اسے ’’تھیومارگریٹا میکنیفیکا ‘‘ نام دیا گیا ہے۔ دیکھنے میں بالکل پتلے دھاگے کی طر ح ہے ۔یہ جر ثومہ کیریبئین کے ساحلوں پر مینگرووز کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ عام بیکٹیریا کی لمبائی صرف 2 مائیکرومیٹر ہوتی ہے لیکن یہ جرثومہ اوسطاً 10,000 مائیکرومیٹر جتنا لمبا ہے جب کہ اس کا سب سے بڑا نمونہ 20,000 مائیکرومیٹر جتنا دیکھا گیا ہے۔
یعنی یہ عام بیکٹیریا کے مقابلے میں 5,000 سے 10,000 گنا تک بڑا ہے۔ اس نودریافتہ جرثومے کا جینوم 1 کروڑ 10 لاکھ ڈی این اے اساسی جوڑوں اور 11,000 جین پر مشتمل ہے۔ یعنی عام بیکٹیریا سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔تھیومارگریٹا میگنیفیکا کی خاص بات یہ ہےکہ اس میں بیک وقت پروکیریوٹ اور یوکیریوٹ، دونوں کی خصوصیات موجود ہیں جو اسے باقی تمام یک خلوی (یونی سیلولر) جانداروں سے منفرد بناتی ہیں۔
طوفانی بارش میں اڑنے والا ڈرون
سائنس دانوں نے2022 ء میں طوفانی بارش میں اڑنے والا ڈرون تیار کیا ہے یہ ایم 300 آرٹی کے ڈرون نہ صرف اپنے ہیلی پیڈ نما ڈاکنگ اسٹیشن سے پرواز کرتا ہے بلکہ تیز بارش اور برفباری میں بھی اپنی ہموار پرواز جاری رکھتا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ڈرون صنعتی اور فضائی معیارات کے تحت بنایا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر واٹر پروف ہے جسے موسم سے بچاؤ کے لیے ہرطرف سے بند کیا گیا ہے۔
کمپنی کے مطابق یہ نیا ڈرون تیزبارش، بلندی، طوفانی ہواؤں، برفباری اور ژالہ باری کے ساتھ ساتھ منفی 20 کی سردی اور 50 درجے کی گرمی میں آسانی سے کام کرسکتا ہے۔ گردوغبار اور پانی سے محفوظ اس ڈرون کی آئی پی 45 ریٹنگ ہے۔ یہ فولڈ ہونے والے ڈرون میں سب سے نمایاں اور بہترین مقام رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد یہ مسلسل 41 منٹ تک پرواز کرسکتا ہے۔
سرجنز کو خودکار تربیت دینے والے ’’اسمارٹ دستانے‘‘
اس سال آسٹریلوی ماہرین نےسینسر سے بھرا دستانہ تیار کیا ہے جو ہاتھوں کی حرکات کی رہنمائی کرتا ہے ۔ سرجیکل دستانوں میں لگے سینسر پہننے والے کی انگلیوں اور حرکات پر نظر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فیڈ بک اور رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس دستانے میں انگشتِ شہات، انگوٹھے اور درمیانی انگلی کی پشت پر تاروں سے جڑے سینسر نصب کیے گئے ہیں۔ یہ تار کی صورت میں ہیں جنہیں ’’انرشیئل میژرمنٹ یونٹس‘‘( آئی ایم یو) کہا جاتا ہے۔ ایک دستانے میں سینسر یا یونٹ کی تعداد نو کے قریب ہے۔
آئی ایم یو کا ڈیٹا دستانے کی پشت پرلگےہوئے بہت چھوٹے سرکٹ تک جاتا ہے۔ یہ ڈیٹا بلیوٹوتھ طریقے سے اسمارٹ فون ، ٹیبلٹ، کمپیوٹر یا ڈیٹابیس کلاؤڈ تک جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا پورا ڈیٹا بیس ایک کیٹلاگ کی صورت میں بنتا رہتا ہے جو بعد ازاں سرجنوں کے کام آتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ جراحی کا درست طریقہ کونسا ہے ،جس سے سرجنز رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب ان دستانوں کو آگمینٹڈ ریئلٹی کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فی سیکنڈ میں دو ارب تصاویر پروسیس کرنے والی دماغی چپ
2022 ء میں جامعہ پنسلوانیاکے سائنس دانوں نے عین دماغی طور پر کام کرنے والی طاقتور آپٹیکل چپ تیار کی ہے جو ایک سیکنڈ میں دو ارب تصاویر پروسیس کرسکتی ہے ۔یہ برقی چپ اعصابی (نیورل ) نیٹ ورک کی طرز پر تیار کی گئی ہے جو روایتی انداز کے بر عکس کام کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا نظام عین دماغی اور اعصابی نظام کے تحت بنایا گیا ہے۔
اس میں موجود نوڈز دماغی خلیات یا نیورون کی طرح جڑے ہوتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ نیورل نیٹ ورک کی طرح ازخود سیکھتے رہتے ہیں اور اپنی کارکردگی بہتر بناتے رہتے ہیں۔ یعنی وہ تصاویر یا الفاظ کے مجموعے کے ڈیٹا سیٹ کو دیکھتے ہوئے سیکھتے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ پروسیسنگ بہتر سے بہتر ہوتی رہتی ہے۔ چپ کے اندر برقی سگنل کی بجائے روشنی ایک سے دوسرے مقام تک دوڑتی نظر آتی ہے، جس کی بنا پر اسے’’ آپٹیکل چپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
تھری ڈی اٹامک فورس خردبین
متحدہ عرب امارات میں قائم نیو یارک یونیو رسٹی کے سائنس داں ڈاکٹر محمد قصیمہ اور ان کے ساتھیوں نے اس سال نئے طر یقے سے اٹامک فورس مائیکرواسکوپی (اے ایف ایم ) سینسر بنایا ہے ،انہیں تھری ڈی ٹی آئی پی ایس کا نام دیا گیا ہے ۔یہ مائیکرو اور نینو پیمانے پر اشیا کو بہت واضح انداز میں دکھا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تھری ڈی سازی کے ایک ہی مرحلے سے تشکیل دئیے گئے ہیں اور اسے جدید ترین اے ایف ایم قرار دیا گیا ہے ۔روایتی بصری خردبین کے مقابلے میں اے ایف ایم کسی شے کو 1000 گنا واضح کرکے دکھاتی ہے۔ اسے طب، مینوفیکچرنگ سمیت خلیات، ڈی این اے اور پروٹین دیکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہم حقیقی وقت میں براہِ راست انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
روایتی اے ایف ایم میں سلیکون ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جب کہ وہ دوجہتی ڈیزائن رکھتے ہیں اور ان کی تیاری میں بہت سے مراحل شامل ہوتے ہیں۔ لیکن روایتی ٹیکنالوجی سےجانوروں یا انسانوں کے خلیات کی جانچ مشکل ہوتی ہے،تاہم اپنی تیاری اور ڈیزائن کے تحت تھری ڈی ٹی آئی پی ڈی این اے، پروٹین اور ہرقسم کے خلیات کی جانچ کرسکتے ہیں اور ہمیں ان کی سطح بھی دکھا سکتے ہیں۔ دوسری جانب اسکیننگ کا عمل بھی 100 گنا تیز ہو جاتا ہے۔ یعنی اس سے بلند معیار کی تصاویر بہت تیزی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
مختصرترین وائس ریکارڈر
رواں سال دنیا کا مختصر ترین وائس ریکارڈ تیار کیاگیا ہے ،اس وائس ریکارڈر کی جسامت ایک ڈاک ٹکٹ سے کچھ بڑی ہے، وزن 18 گرام اور گنجائش 32 جی بی کی ہے۔’’ایزی ریک‘ ‘نامی اس اہم ایجاد میں دو غیر معمولی حساس ایچ ڈی مائیک نصب ہیں جوسات میٹر دوری سے 360 درجے دائرے کی ہر آواز ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ چارج کرنے پر یہ 50 روز تک چل سکتا ہے۔
اس کا حساس نظام صرف آواز آنے کی صورت میں ہی سرگرم ہوتا ہے اور یوں وقت ضائع نہیں ہوتا۔ یعنی آواز میں وقفہ ہوتو ریکارڈنگ رک جاتی ہے۔ دوسری جانب سات میٹر دوری کی آواز نوٹ کرنے کی صورت میں اطراف کا شور بھی ریکارڈ ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ایک اسمارٹ سسٹم کی بدولت شورکو ازخود ختم کردیتا ہے۔ اس میں 450 ایم اے ایچ کی بیٹری نصب ہے۔یوایس بی ٹائپ سی کیبل سے چارج ہونے والی یہ اہم ایجاد بلیو ٹوتھ سے ڈیٹا بھیج سکتی ہے۔ وسیع گنجائش کی بدولت اس میں 240 گھنٹے کی آواز محفوظ کی جاسکتی ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل کیمرہ
2022 ء میں سائنس دان نے فلکیاتی تحقیق کے لیے دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل کیمرہ تیار کیاگیا۔ اس کی مجموعی طاقت 2666 موبائلز کے برابر ہے جسے چلی میں ویرا سی ریوبن رصدگاہ میں لگایا جائے گا۔ اسےاسٹینفرڈ لینیئر ایسلریٹرلیبارٹری کےماہرین نے تیار کیا ہے۔ ماہرین نے اسے ایل ایس ایس ٹی کیمرے کا نام دیاہے۔ کیمرے کا وزن تین ٹن اور جسامت ایک چھوٹی کار کے برابر ہے۔ اس میں لگا 3200 میگاپکسل سینسرمنفی 100 درجے سینٹی گریڈ پر سرد کیا جائے گا ،جس سے ڈیجیٹل تصاویر کا شورکم کیا جاسکے گا۔
ماہرین کو توقع ہے کہ نئے ستاروں، سیاروں، کہکشاؤں اور دیگر اجرامِ فلکی کی تلاش کے علاوہ اس سے تاریک مادّے (ڈارک میٹر) اور تاریک توانائی (ڈارک انرجی) کی تلاش میں بھی مدد ملے گی۔ اس میں 189 سینسر لگے ہیں۔ اس کی ریزولوشن کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یہ چاند پر موجود ریت کا ایک ذرّہ بھی دیکھ سکتا ہے، جس کی قوت 3.2 گیگا پکسل ہے،تاہم یہ بہت ہی حساس کیمرہ ہے ۔
پانی میں گھل کر غائب ہونے والی کاغذی بیٹری
رواں برس ماحول دوست کاغذی بیٹری تیار کی گئی جوازخود گھل کر ختم ہوجاتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ کاغذی بیٹری ماحول پر بیٹریوں کے منفی اثرات اور زہریلے کیمیائی اجزا کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اس سے کم بجلی خرچ کرنے والے سینسر، اسمارٹ لیبل والی اشیا، ٹریکنگ اور طبی آلات اور دیگر برقی پرزوں کو توانائی فراہم کی جاسکے گی۔ یوں کاغذی بیٹری پانی سے روبہ عمل ہوگی اور خاص وقت میں گھل کر ختم ہوجائے گی۔ اس پر کاغذ پر چھاپی گئی تین روشنائیوں (انک) سے سرکٹ کاڑھا گیا ہے۔
کاغذی پٹی کو سوڈیئم کلورائیڈ میں ڈبویا گیا اور اس کے چھوٹے سروں میں سے ایک کو خاص موم میں ڈبویا گیا ہے۔ روشنائی میں گریفائٹ کا چورا لگایا گیا ہے جو بیٹری کے مثبت برقیرے یا کیتھوڈ کی تشکیل کرتے ہیں۔ دوسری قسم کی انک میں زنک کا سفوف ہے جو بیٹری کا اینوڈ یا منفی سرا بناتا ہے۔
کاغذ کے دونوں جانب سیاہ کاربن لگایا گیا ہے جو مثبت اور منفی برقیروں کے عمل کو ممکن بناتا ہے۔ جب اس کاغذ پر پانی کی معمولی مقدار ڈالی جاتی ہے تو کاغذی بیٹری سے چارج جاری ہونے لگتا ہے اور بیٹری کام کرنے لگتی ہے، پھر برقیروں کو کسی بھی آلے سے جوڑ کر اسے بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔
موبائل چارج کرنے والا کپڑا
جب کہیں باہر ہو اور موبائل کی جارجنگ ختم ہورہی ہو تو کا فی مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن 2022 ء میں برطانیہ کی ٹاٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے محققین نے ایک ایسا کپڑا تیار کیا ہےجو موبائل چارج کرسکتا ہے ۔اس کپڑے میں 1200 چھوٹےچھوٹے فوٹو ولٹائک سیلز (سولز پینلز ) نصب کیے گئے ہیں ۔یہ سیلز سورج کی روشنی سے 400 ملی واٹ کی توانائی بناسکتے ہیں جو ایک اسمارٹ واچ یا موبائل فون کو چارج کرنے کے لیے کافی ہے اور ان کو کپڑے بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹیکسٹائل محقق ڈاکٹر تھیوڈور ہیوزرائلے کے مطابق یہ نمونہ مستقبل کے ای-ٹیکسٹائل کی دلچسپ جھلک ہے۔ ٹیکسٹائل اشیاء بجلی بنانے کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کپڑا بالکل عام سے ٹیکسٹائل کی طرح دِکھتا ہے۔ اس پر سلوٹیں بھی آسکتی ہیں اور مشین میں بھی دھویا جاسکتا ہے۔ لیکن سطح کے نیچے ہزار فوٹو ولٹائک سیلز کا ایک نیٹ ورک لگایا ہے جو سورج کی روشنی سے توانائی بنا کر ذاتی آلات کو چارج کر سکتا ہے۔
اس مواد کو سولر سیلز کے ساتھ لمبائی میں 0.2 انچ اور 0.06 انچ چوڑائی میں جوڑا گیا ہے ۔ہر سولر سیل پر واٹر پروف تہہ چڑھی ہوئی ہے اور یہ آپس میں مضبوط اور لچکدار تاروں سے جڑے ہوئے ہیں۔
2022ء :ایجادات کا میدان مزید وسیع کرنے والے روبوٹس
دنیا کا سب سے بڑا ’’روبوٹ بیل‘ ‘
چینی انجینئروں نے اس سال دنیا کا سب سے بڑا چوپایہ روبوٹ تیار کیا ہے، جسے ’’مکینیکل یاک ‘‘ (روبوٹ بیل ) کانام دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ روبوٹ فوجی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے جو ایسے دشوار گزار اور خطرناک علاقوں میں دشمن کی نگرانی کرسکے گا جہاں پہنچنا اور پہرہ دینا فوجیوں کے لیے جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کی اونچائی ایک عام انسان کے مقابلے میں نصف ہے جب کہ لمبائی تقریباً انسان جتنی ہے۔ یہ چار پیروں پر آگے اور پیچھے چلنے کے علاوہ دائیں بائیں بھی گھوم سکتا ہے اور اپنا رُخ بدل سکتا ہے۔ یہ خود پر 160 کلوگرام وزنی سامان لاد کر 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔
یعنی اس کا ایک مقصد دشوار گزار علاقوں میں فوجی سامانِ رسد پہنچانا بھی ہوگا۔ یہ مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئر کے علاوہ کئی طرح کے حساسیوں (سینسرز) سے بھی لیس ہے ،جب کہ بدلتے ماحول اور حالات میں لڑکھڑائے بغیر چلتے رہنے کےلیے اس میں جوڑوں کے 12 ماڈیول بھی نصب ہیں جو اس کی حرکت کو ہموار رکھتے ہیں۔
گھر کی صفائی کرنے والا روبوٹ
2022 ء میں ماہرین نے گھر کی صفائی کے لیے روڈمائی ای وی روبوٹ تیار کیا ہے۔ یہ صفائی کا کام نہایت خوش اسلوبی اور تیزی سے انجام دے سکتا ہے۔ اپنا کام مکمل کرنےکے بعد یہ ازخود اپنے چارجنگ خانے میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں چارج ہوتا رہتا ہے۔ ایپ کی بدولت اس کی ٹائمنگ اور کام کا انتخاب بھی کیا جاسکتا ہے۔ اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود یہ بہت قوت سے ہوا کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو 3200 پی اے قوت تک ہوسکتی ہے۔
اسی بنا پر یہ گرد کے چھوٹے ذرّات کو بھی اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔آپ اسے ایپ سے کنٹرول ہونے والا ایک ایسا ویکیوم کلینر کہہ سکتے ہیں جو خودکار انداز میں کام کرتا ہے۔ یہ ازخود آگے بڑھتا ہے اور اپنی ڈیوٹی انجام دیتا رہتا ہے۔ دوسرا اس کے اندر گردوغبار سے بھرا بیگ ہے جسے یہ ازخود خالی کرتا ہے۔
اگر آپ اس سے پونچھا لگوائیں گے تو یہ فرش کو گیلا کرکے اسے فوری طور پر خشک بھی کرسکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ تین طرح سے صفائی کرتا ہے یعنی ایک ہی نظام میں ویکیوم، پونچھا اور جھاڑولگانے کا کام بھی کرسکتا ہے۔ اگر آپ کو صوفے کے نیچے گھس کر گیلا کپڑا پھیرنے یا جھاڑو لگانے میں کسی مشکل کا سامنا ہے تو یہ روبوٹ اندر گھس کر یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہےکہ اسے گوگل اور ایلکسا کے وائس کنٹرول سے بھی ہدایت دی جاسکتی ہیں۔ اس کا اندرونی نظام 60 روز کی گرد اپنے اندر رکھ سکتا ہے۔
70 گنا فاصلہ طے کرنے والا برقناطیسی روبوٹ
رواں برس آسٹریا میں واقع جوہانس کیپلر یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارٹین کیلٹن نے ڈاک ٹکٹ کی جسامت والا روبوٹ تیار کیا ہے جو برقی مقناطیسی قوت سے اپنے جسم سے 70 گنا زائد جسامت فی سیکنڈ کی رفتار سے طے کرسکتا ہے۔ یہ روبوٹ جست بھرتا، تیرتا ہے اور گھوم سکتا ہے۔ یہ جسم کے اندر ادویہ پہنچانے اور انسانی جسم میں دیگر اہم امور انجام دے سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بہت ہی تیز رفتار روبوٹ ہے، جس کی سرعت حیران کن ہے۔ یہ ربڑنما مٹیرئیل اور مقناطیسی فیلڈ کے تحت کام کرتا ہے۔
لچکدار ربڑ نما مادّے سےبنایا گیا روبوٹ یو کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ اس میں باریک دھاتی تار گزررہے ہیں۔ جب جب تاروں کی بجلی روبوٹ کے مقناطیسی میدان سے عمل پذیر ہوتی ہے تو روبوٹ میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بجلی فراہم کرنے والی چھوٹی سی بیٹری روبوٹ پر ہی لگائی گئی ہے۔ بعدازاں سائنس دانوں نے ایل اور یو شکل کے دو روبوٹ بنائے لیکن روبوٹ کے پائوں نہیں بن پارہے تھے تو اس کے لیے ماہرین نے فطرت کے کچھ جانوروں کو دیکھا گیا ،پھر آری کے دانتوں کی طر ح شکل ڈھالی گئی ۔اسی اختراع کی وجہ سے روبوٹ اب کاغذ، فرش اور ربڑ وغیرہ پر چل سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ دائرے میں گھوم سکتا ہے، پانی میں تیرتا ہے اور چھوٹی رکاوٹیں بھی عبور کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ سامان بھی اٹھا سکتا ہے۔اور اپنے جیسے روبوٹ سے 17 گنا زائد وزن بھی برداشت کر لیتا ہے۔ اپنی مکمل بیٹری کی بدولت یہ نصف گھنٹے تک چل سکتا ہے۔ فی الحال اپنی مکمل بیٹری کی بدولت یہ نصف گھنٹے تک چل سکتا ہے۔چینی انجینئروں نے اس سال دنیا کا سب سے بڑا چوپایہ روبوٹ تیار کیا ہے ،جسے ’’مکینیکل یاک ‘‘ (روبوٹ بیل) کا نام دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ روبوٹ فوجی مقاصد کےلیے تیار کیا گیا ہے جو ایسے دشوار گزار اور خطرناک علاقوں میں دشمن کی نگرانی کرسکے گا جہاں پہنچنا اور پہرہ دینا فوجیوں کےلیے جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کی اونچائی ایک عام انسان کے مقابلے میں نصف ہے جب کہ لمبائی تقریباً انسان جتنی ہے۔ یہ چار پیروں پر آگے اور پیچھے چلنے کے علاوہ دائیں بائیں بھی گھوم سکتا ہے اور اپنا رُخ بدل سکتا ہے۔
یہ خود پر 160 کلوگرام وزنی سامان لاد کر 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ یعنی اس کا ایک مقصد دشوار گزار علاقوں میں فوجی سامانِ رسد پہنچانا بھی ہوگا۔ یہ مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئر کے علاوہ کئی طرح کے حساسیوں (سینسرز) سے بھی لیس ہے ،جب کہ بدلتے ماحول اور حالات میں لڑکھڑائے بغیر چلتے رہنے کے لیے اس میں جوڑوں کے 12 ماڈیول بھی نصب ہیں جو اس کی حرکت کو ہموار رکھتے ہیں۔