• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر ۔۔۔۔ لیسٹر
مشرقی پاکستان کے سانحہ کو نصف صدی بیت چکی ہے لیکن اس کے زخم آج بھی ترو تازہ ہیں یہ حادثہ بھلانے سے بھی نہیں بھلایا جا سکتا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت ہر کوئی سوگوار تھا۔ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہماری فوج اتنی جلدی ہتھیار ڈال دے گی، ریڈیو پاکستان اور دیگر ذرائع ابلاغ کچھ اور ہی بتا رہے تھے کہ اچانک ہھتیار ڈالنے کی خبر آئی جو پوری قوم پر بجلی بن کر گری۔ پوری قوم سکتے میں آگی۔ کیونکہ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ نوبت بھی آئے گی، بنگلہ دیش اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، ہمارے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ پاکستان کیوں اور کیسے دولخت ہوا تھا تا کہ قوم اس سے سبق سیکھے اور وہ غلطیاں دوبارہ نہ دھرائی جائیں جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنی تھیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے اربابِ اختیار بنگالیوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے رہے، ان سے وہ سلوک نہ کیا جس کے وہ مستحق تھے، مشرقی پاکستان آبادی کے حساب سے مغربی پاکستان سے بڑا صوبہ تھا لیکن دارالحکومت مغربی پاکستان میں قائم کیا گیا پھر متحدہ پاکستان کے دور میں اقتدار پر براجمان زیادہ تر مغربی پاکستان کے سیاستدان ہی رہے۔ سربراہِ مملکت کے علاوہ وزراء کی زیادہ تعداد بھی مغربی پاکستان سے تھی، یہ بہت بڑی ناانصافی تھی اس سے یہ احساس تقویت پکڑتا گیا کہ سارا اقتدار مغربی پاکستان کے پاس ہے۔ آزادی کی تحریک میں مشرقی پاکستانی سیاستدان حسین شہید سہروردی کی بڑی خدمات تھیں لیکن ان کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا گیا، وہ حزب اختلاف کے ممتاز رہنما تھے، ان کا احترام واجب تھا لیکن ان پر غداری کے الزامات عائد کیے گے، پھر وہ مارشل لاء دور میں بیروت میں پر اسرار طور پر فوت ہوگئے جس کی وجہ سے بھی کئی کہانیوں نے جنم لیا، بنگالی بھائی چاہتے تھے کہ اردو کے ساتھ بنگلہ زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے، جب قیامِ پاکستان کے بعد صرف اردو کو ہی سرکاری زبان قرار دینے کی بات ہوئی تو مشرقی پاکستان میں زبردست احتجاج ہوا، اس احتجاج میں کچھ افراد ہلاک بھی ہو گے جس سے نفرت کا آغاز ہوا۔ ایک طرف بیوروکریسی میں بنگالی ایک تہائی سے بھی کم تعداد میں تھے اور دوسری طرف مغربی پاکستان کے وہ افسران جو مشرقی پاکستان میں متعین تھے۔ ان کا رویہ بنگالی بھائیوں کے ساتھ انتہائی متکبرانہ تھا۔ مثلا"عزیز احمد جو مشرقی پاکستان کے پہلے چیف سیکرٹری کی حیثیت سے وہاں تعینات کئے گئے تھے عام لوگ تو درکنار وہ صوبائی وزراء تک کی بھی موقع بے موقع بے عزتی کرنے سے باز نہیں آتے تھے، ان عوامل نے آغاز میں ہی نفرتوں کے بیج بو دئیے تھے جسے ہندو اساتذہ نے طالب علموں کے ذہنوں میں دوآتشہ بنا کر پیش کیا،متحدہ پاکستان کے چوبیس سالہ دور میں نصف عرصہ تک مارشل لاء مسلط رہا، فوج میں بھرتی کا معیار بھی تعصب پر مبنی تھا جس کی وجہ سے بنگالی زیادہ تر بھرتی سے محروم رہتے تھے۔ نتیجتاً فوج زیادہ تر پنجابی اور پختون جوانوں پر مشتمل تھی، جرنیلوں کی اکثریت بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتی تھی جس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ چونکہ حکومت فوج کی ہے جس کا تعلق مغربی پاکستان سے ہے لہٰذا اقتدار پر قبضہ مغربی پاکستان کا ہے، فوجی آمریت نے بھی ان کے خدشات میں بے پناہ اضافہ کیا پھر ایوبی دور میں انتخابات میں جس طریقے سے مس فاطمہ جناح کو ہرایا گیا اس سے بنگالیوں کے دل ٹوٹ گے۔ جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا بھر پور ساتھ دیا تھا، اس کھلی دھاندلی سے ان کا غصہ نفرت میں بدل گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس خطہ زمین پر مسلم لیگ نے جنم لیا، وہی خطہِ زمین پاکستان سے بھی آزادی مانگنے پر تل گیا، شیخ مجیب الرحمن جو قیامِ پاکستان کے پرجوش سپاہی تھے، بالآخر وہی بنگلہ دیش کے قیام کے ہیرو اور بنگلہ بندھو بن گے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نفرت اور بے انصافی کے رویے تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ یحییٰ خان دور میں جو انتخابات ہوئے اس میں سب سے زیادہ نشستیں شیخ مجیب الرحمن کی جماعت نے حاصل کیں۔ جس نے نصف سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے واضح کامیابی حاصل کر لی تھی۔ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر تھی، اس لیے مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہئے تھا لیکن یحییٰ خاں اور بھٹو نے آئین سازی کے لیے مذاکرات شروع کر دئیے یعنی جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئے تھے، انہیں پارلیمنٹ سے باہر حل کرنے کی کوشش کی جانے لگی اور بالآخر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی بجائے فوجی ایکشن شروع کر دیا۔ یہ سرا سر ظلم تھا جس سے بنگالی بھڑک اٹھے، بھلا فوج عوام کے خلاف کیسے لڑ سکتی تھی، بہت سے بنگالی فوجی تربیت کے حصول کے لیے بھارت چلے گئے پھر بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی، ایک طرف عوام خلاف ہو گئے دوسری طرف بھارت کے خلاف جنگ شروع ہوگی، ظاہر ہے شکست لازم تھی، اس ساری صورتِ حال سے یہ سبق ملتا ہے کہ فوج کو سول معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے، سیاسی معاملات سیاسی طریقے سے حل ہونے چاہئے، حقوق کسی کے بھی پامال نہیں ہونے چاہئے، خاص طور پر پسماندہ صوبوں اور علاقوں پر توجہ کی ضرورت ہے، جمہوری نظام میں حزبِ اختلاف کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،پارلیمنٹ میں اس کے بھی نمائندے ہوتے ہیں، منتخب ممبران کوخواہ مخواہ دیوار سے نہ لگائیں کیونکہ اصل حکومت پارلیمنٹ کی ہوتی ہے، بد قسمتی سے ہم آج بھی پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے جس سے مسائل جنم لیتے ہیں، عوام کے نمائندوں کو اہمیت دیں، ان کے مسائل حل کریں، بیوروکریسی کو اپنا رویہ درست کرنا چاہئے، بالادست طبقات اور وڈیروں کی بالادستی کا خاتمہ ضروری ہے، اگر ہم ان خرابیوں کو دور نہیں کریں گے تو اسی طرح کے بحران پھر پیدا ہو سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح کے صدمات اور حادثات سے محفوظ رکھے۔
یورپ سے سے مزید