• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز الہٰی، پنجاب کابینہ بحال، اسمبلی نہیں توڑوں گا، وزیراعلیٰ کی تحریری انڈر ٹیکنگ پر گورنر کا حکم معطل، 11 جنوری کیلئے نوٹس جاری، لاہور ہائیکورٹ

لاہور (نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ کےجسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹیفکیشن کیخلاف دائر درخواست منظور کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور انکی کابینہ کو بحال کردیا،عدالت نے وزیراعلیٰ کی تحریری انڈرٹیکنگ پر کہ ’’اسمبلی نہیں توڑوں گا‘‘ گورنر کا حکم معطل کردیا اور فریقین کو 11 جنوری کو فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔ دوران سماعت پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹ سکتی، جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دئیے کہ عدم اعتماد واپس ہوچکی ،اگر آپ اسمبلی توڑ دینگے تو پھر یہ پٹیشن غیر موثر ہو جائیگی اور نیا کرائسس پیدا ہوگا،منظور وٹو کیس میں بھی یہ معاملہ پیش آیا تھا،آپکی انڈر ٹیکنگ لینے کا مقصد ہے کہ کوئی غلط استعمال نہ کر سکے۔عدالتی تعطیلات کے بعدوکلاء اس کیس میں تفصیلی دلائل دینگے، پانچ رکنی بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس عاصم حفیظ ، جسٹس چوہدری محمد اقبال ، جسٹس مزمل اختر شبیر اور طارق سلیم شیخ شامل ہیں۔گورنر پنجاب کے وکیل نے موقف اپنایا کہ اگر پرویز الٰہی پیر کو یا سات دن میں اعتماد کا ووٹ لے لیں تو نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں، عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل سے کہا کہ آپ بھی تحریری انڈرٹیکنگ دیدیں کہ گورنر نوٹیفیکیشن واپس لے لینگے، جس پر پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم نے نوٹیفیکیشن کی لاقانونیت کو چیلنج کیا ۔بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا پرویز الٰہی 22 جولائی کو چیف منسٹر منتخب ہوئے، پرویز الٰہی نے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے 10 ووٹ نکال دئیے، یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور سپریم کورٹ نے 27 جولائی کو ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو غلط قرار دیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ وزیر اعلی پرویز الٰہی ہونگے، وزیر اعلیٰ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے، 20 اراکین اسمبلی کے دستخط کے ساتھ تحریک جمع ہو سکتی ہے، چیف منسٹر کو اسمبلی منتخب کرتی ہے، چیف منسٹر کو تعینات نہیں کیا جاتا، اگر گورنر سمجھے کہ وزیر اعلی اکثریت کھو چکے ہیں تو وہ عدم اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں، عدم اعتماد کیلئے الگ سے سیشن بلایا جاتا ہے، گورنر تحریک عدم اعتماد کیلئے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دئیے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عمل درآمد تو ہونا چاہیے، گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہ سکتا ہے یہ تو رولز میں ہے، اس پر علی ظفر نے کہا کہ عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے اسمبلی کا پروسیجز بھی ہے، اس پورے پراسس کیلئے مناسب وقت دینا چاہیے، اگر کوئی سیشن ہی نہیں ہے تو وزیر اعلی کہاں ووٹ لے گا؟ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ میڈیا پر خبر آئی کہ ایک وزیر کی پرویز الٰہی کے ساتھ تکرار ہوئی اس نے استعفیٰ دے دیا، کہا گیا عمران خان نے بیان دیا کہ پرویز الٰہی کی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ ہوا اور انہیں پتا ہی نہیں ان بنیادوں پر عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا، ان کو یہ نظر نہیں آتا پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ بیان بھی میڈیا پر آیا، اس دوران جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو منحصر ہے گورنر صاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں جس پر عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں سیشن بلائے بغیر چیف منسٹر کو ڈی سیٹ کر دیا گیا، یہ سارا پراسس تو اب بھی ہو سکتا ہے، یہ سارا بحران حل ہو سکتا ہے اگر ووٹنگ کیلئے مناسب وقت دیدیا جائے ،علی ظفر نے کہا کہ یہ تو تب ہو گا جب ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن کالعدم ہو گا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہ ہم دیکھیں گے جو قانون کے مطابق ہوا فیصلہ کرینگے۔ علی ظفر نے کہا کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، صوبے میں کابینہ ہے مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں، گورنرمنتخب ہو کر نہیں آتا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے احکامات میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگلے چیف منسٹر تک وزیر اعلی کام جاری رکھیں گے ،علی ظفر نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی، کابینہ کے بغیر وزیر اعلیٰ نہیں رہ سکتا،جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا اگر ہم نوٹیفیکیشن معطل کر کے وزیر اعلیٰ کو بحال کر دیتے ہیں تو کیا امکانات ہیں کہ آپ لوگ اسمبلی تحلیل کر دینگے؟علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کیخلاف تحریک عدم واپس ہو چکی ہے، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر آپ اسمبلی کی تحلیل سے متعلق انڈر ٹیکنگ دیتے ہیں تو پھر اس کو دیکھتے ہیں، علی ظفر صاحب آپ اپنے کلائنٹ سے ہدایات لے لیں ہم چند منٹ بعد دوبارہ بیٹھتے ہیں، عدالت نے کہا کہ اس بارے میں ہدایت لیکر آئیں کہ اعتماد کے ووٹ لینے تک اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی،بعدازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی انڈر ٹیکنگ دینے کیلئے وقت درکار ہے، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدم اعتماد تو واپس ہو چکی ہے، اگرآپ اسمبلی توڑدیں گےتوپھریہ پٹیشن غیر موثر ہوجائےگی اورنیا کرائسس پیداہوگا،عدالت وزیر اعلیٰ کو بحال کرکے خود اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے، جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دئیے کہ ایسے تو عدالت عبوری ریلیف نہیں دے سکے گی، ہم وزیراعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کے آئینی اختیار پر کیسے روک لگا سکتے ہیں، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم ایسا آرڈر کیسے جاری کر سکتے ہیں، یا پھر ہم آپ کو عبوری ریلیف نہ دیں، ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ آپ کہیں گے کہ اسمبلی کی تحلیل نہیں کریں گے، ہم آئین کا مینڈیٹ معطل نہیں کر سکتے،عدالت نے کہا ہم کابینہ کو بحال کرتے ہیں مگر ہمیں یقین دھانی تو کروائی جائے ، ہمیں یہ یقین کیسے ہو گا کہ ہمارے حکم کا غلط استعمال نہیں ہو گا ،ہم آپ کو مزید وقت دے دیتے ہیں ، ہم کیسے اسمبلی تحلیل کے آئینی عمل کو روک سکتے ہیں؟ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی صورتحال پیدا ہو ، عدالت نے پرویز الٰہی کے وکلا کو مزید ایک گھنٹے کا وقت دیدیا آپ بیان حلفی لے آئیں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ ہمارے آرڈر کا غلط استعمال نہیں ہو گا آپ بیان حلفی دیں کہ بحال ہونے پر پرویز الٰہی اسمبلی نہیں توڑینگے،عدالت نے کہا انڈر ٹیکنگ دینے کا مقصد یہ تھا دوسری طرف سے کچھ نہ ہو،یہ صرف دونوں فریقوں کو کسی بھی انتہائی قدم سے روکا جائے،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آپ مجھے ہدایت جاری کر دیں اعتماد کا ووٹ لینے کی حد تک، قبل ازیں دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا پرویز الٰہی نے وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں 186 ووٹ حاصل کئے، ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ ختم کر دیئے اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا، سپریم کورٹ کے حکم پر دوبارہ ووٹ شامل ہونے پر پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے، عدم اعتماد کی تحریک پہلے ہی ن لیگ نے جمع کرا رکھی تھی، گورنر اچانک محسوس نہیں کرسکتا کہ وزیر اعلیٰ کو ممبران کی حمایت حاصل نہیں رہی،گورنر وزیراعلی کو بلا کر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتا،گورنر وزیراعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے فوری اجلاس نہیں بلاتا، آئین کے تحت دو شقوں کے ذریعے ہی وزیر اعلیٰ کو ہٹایا جا سکتا ہے، گورنر وزیراعلی کو تعینات کرنے کی اتھارٹی نہیں اسی لئے وزیراعلی کو ہٹانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا، گورنر عدم اعتماد کے لیے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ جب عدم اعتماد کیلئے تین سے سات دن کا وقت ہے تو اعتماد کے ووٹ کیلئے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدم اعتماد کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے اراکین کو نوٹس دیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ رولز کے مطابق کیا اسی دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی ؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ایک ہی دن نوٹس اور ووٹنگ کروا سکتا ہے، اعتماد کے ووٹ کیلئے مناسب وقت ملتا چاہیے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں سیشن بلائے بغیر چیف منسٹر کو ڈی سیٹ کر دیا گیا ؟ یہ سارا پراسس تو اب بھی ہو سکتا ہے ،یہ سارا بحران حل ہو سکتا ہے اگر ووٹنگ کیلئے مناسب وقت دیدیا جائے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے احکامات میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگلے چیف منسٹر تک وزیر اعلی کام جاری رکھیں گے ،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر وزیر اعلی رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی کابینہ کے بغیر وزیر اعلی نہیں رہ سکتا،یہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا منتخب وزیراعلی ہے ، گورنر منتخب ہو کر نہیں آتا بلکہ وزیراعظم کی سفارش پر بنتا ہے ، اب گورنر نے صرف پرویز الہی کو اگلے وزیراعلی کے انتخاب تک کام کرنے کی اجازت دی ، جب کابینہ ہی نہیں تو پھر وزیراعلی کیسے معاملات چلائے گا؟ ۔قبل ازیں جسٹس فاروق حیدر کی جانب سے معذرت کرنے پر بینچ تحلیل ہوگیا تھا ، بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا تھا کہ جسٹس فاروق حیدر درخواست گزار کے وکیل رہ چکے ہیں، ہم نے کیس کی فائل نئے بینچ کیلئے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بھجوا دی ہے،اس موقع پر پرویز الٰہی کے وکیل نے استدعا کی کہ کیس کو آج ہی سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔

اہم خبریں سے مزید