• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت کے مسائل سمجھنا عام لوگ تو دور، بہت سے پڑھے لکھے افراد کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ مہنگائی شاید خراب معیشت کا وہ پہلو ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اس کی دیگر پیچیدگیوں سے تو لگتا ہے کہ ہمارے معاشی پالیسی ساز بھی معیشت کی باریکیوں کا درست ادراک نہیں رکھتے۔ ویسے پاکستان میں معیشت کی کیا ہی بات کی جائے. پچھلے چند حکومتی ادوار کے متعدد وزرائے خزانہ کی کارکردگی پر دیکھی جائے تو ان کے نزدیک بیرونی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے امداد کی مد میں ملنے والی رقوم ہی ان کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی ہے۔

پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن پاکستان معاشی لحاظ سے غریب ممالک میں بھی ایک عجوبہ ہے، جہاں بڑے شہر بھی ہیں، بڑی شادیاں بھی ہوتی ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں بھی نظر آتی ہیں، شہروں میں بڑے بڑے ریسٹورنٹس بھی نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ شدید غربت بھی ہے۔

پاکستان کے بہت سے معاشی مسائل ہیں اور سب ہی سنگین نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی ایک معاشی مسئلہ حل ہو جائے تو پاکستان بہت ترقی کرے گا۔ ایک طرف ہماری درآمدات ، برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں یعنی اگر پاکستان ایک کمپنی ہوتا تو ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں اور بیچتے کم ہیں۔ کون سی کمپنی ہے جو اس طرح مستقل چل سکتی ہے؟ دوسری طرف اس کمپنی کی مینجمنٹ یعنی حکومت اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کرتی ہے جس میں سے زیادہ تر غیر پیداواری خرچے ہی ہوتے ہیں۔ پھر ہمارا ایسا غریب ملک ہے جہاں اعلیٰ سرکاری ملازمین کو ڈرائیور، نوکر، ریاستی زمین یا لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے سستے پلاٹ بھی دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نااہلی کی ایک مثال انرجی سیکٹر میںبھی نظر آتی ہے۔ ہمارایہ نظام انتہائی خراب ہے اور اس سیکٹر میں ہم اربوں کا نقصان کر کے اپنے اوپر بیس کھرب سے زیادہ کا گردشی قرضہ چڑھا چکے ہیں۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن ایک طرف ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہے اور بچی کھچی کسر زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا کر نکالی جا رہی ہے۔

ہم نے دراصل کبھی اپنی معاشی سمت متعین ہی نہیں کی۔ زرعی ملک بنتے بنتے ریئل اسٹیٹ کی طرف نکل گئے يا پھر آئی ٹی ایکسپورٹ حب بننے کا سوچنا شروع ہی کیا تو فری لانسرز کے لیے مشکلات پیدا کرنے لگے۔ پھر بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ صرف عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ حکومتوں کے اپنے فنانس ماہرین بھی معاشی ترقی کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں جو حقیقی طور پر معیشت کے لیے صحیح نہیں ہوتا، جیسا کہ مصنوعی طور پر ڈالر کا مستحکم ہونا، جس کی وجہ سے برآمدات میں کمی آتی ہے، خزانے کا نقصان ہوتا ہے اور ڈالرز کی بلیک مارکیٹ جنم لیتی ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اسی طرح ہماری ایلیٹ کلاس بہت خوش ہوتی ہے جب امپورٹڈ برانڈ یا گاڑیاں پاکستان میں آسانی سے آتی ہیں جبکہ اس کا نقصان مقامی انڈسٹری کو ہوتا ہے۔ اسی طرح سارا پیسہ ریئل اسٹیٹ میں لگنا اور ریئل اسٹیٹ کی قیمتیں تیزی سے اوپر جانا انڈسٹری کے لیے خراب بھی ہے اور اس سے ایکسپورٹ نہیں امپورٹ ہی بڑھتی ہیں۔

یہ کمپنی قرض لے لے کرکسی بھی ٹھوس اصلاحات کے بغیر اسی طرح اپنے آپ کو چلاتی رہی ہے۔ ہر نئی حکومت آئی ایم ایف کی طرف بھاگتی ہے، پچھلی حکومت پر سارا الزام ڈال کر عوام پر مزید بوجھ ڈال دیتی ہے لیکن پھر آئی ایم ایف پروگرام کو اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے صحیح طرح پورا بھی نہیں کر پاتی اور نہ ہی اس ملے ہوئے قرض سے بنیادی معاشی اصلاحات کرپاتی ہے۔ ویسے یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ جو ملک کے لیے صحیح ہے وہ ملک میں سیاست کیلئے صحیح نہیں لیکن اب ہم اس نہج پر آگئے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف والا تماشا مزید نہیں چل سکتا۔ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد ہم نہ صرف مغرب کے لیے خطے میں اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں بلکہ اپنے ساتھ مزید سخت رویے کو بھی دعوت دے بیٹھے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کہتے ہیں کہ اس دفعہ آئی ایم ایف کا رویہ ہمارے ساتھ غیر معمولی ہے جبکہ دراصل پرانا رویہ زیادہ غیرمعمولی تھا۔

مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے اور ڈیفالٹ سے پاکستان کو بچانے کی اچھی کوشش کی لیکن اس کی ایک سیاسی قیمت تھی۔ ڈار صاحب کو اتنے نازک موڑ پر اچانک کیوں لایا گیا اور جہاں وہ ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ ان کو آئی ایم ایف کی پروا نہیں، یہ آئی ایم پروگرام میں پھر سے شرکت کے لیے بہت تشویش ناک باتیں ہیں۔ عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کی بات بار بار کی جاتی ہے لیکن ایک دفعہ بھی اصلاحات نہ کر کے بار بار اسی طرح آئی ایم ایف کے پاس جانا عوام پر بار بار بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ پھر ہماری تاریخ 2018 جیسے سیاسی تجربوں سے بھی بھری ہے جس نے معیشت کو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اور کمزور کیا۔

ریاست پاکستان کے لیے سخت فیصلوں کی گھڑی آ گئی ہے اور شاید یہ آخری گھڑیوں میں سے ایک ہے۔ 22 کروڑ غریب لوگوں کا ملک جس میں بے تحاشا مسائل ہیں، کو کوئی دوسرا ملک خدانخواستہ اپنے اندر ضم نہیں کر لے گا مگر 22 کروڑ نفوس کا ملک جہاں پر شدید معاشی بدحالی ہوگی، اس کی مدد کو بھی شاید کوئی نہیں آنا چاہے گا۔ اگر اب بھی سمت درست نہیں کی گئی تو یہ کمپنی یعنی ملک اب اس طرح مزید نہیں چل سکے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین