• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی موجودہ صورتحال روز بروز گمبھیر ہوتی جارہی ہے، ایک طرف ملکی سیاست پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، لوگوں کی قوت خریدجواب دیتی جارہی ہے،بے روزگاری عروج پر ہے، سیلاب متاثرین امداد کیلئے دربدر ہیں،بے یقینی کا عالم یہ ہے کہ اس وقت ہر تین میں سے دوسرا پاکستانی نوجوان ملک سے باہر جا ناچاہتا ہے۔حالیہ غیریقینی صورتحال نے عالمی میڈیا کو بھی یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں تبصرے شروع کر دے، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ایک خبر کے مطابق روس اور یوکرائن جنگ کا اثر پاکستان میں گندم اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پڑا ہے،آئی ایم ایف نے ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالر کی قسط جاری کردی ہے لیکن مزید بات چیت کا عمل معطل ہے، چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق رواں برس بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری کی دس سالہ سالگرہ ہے، چین پاکستان کی مشکل گھڑی میں مدد کرنے کیلئے پُرعز م ہے،دیگرعالمی میڈیا رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مزید قرضہ فراہم کرنے کیلئے اپنی شرائط پر مکمل عمل درآمد چاہتا ہے لیکن مشکلات میں گھری حکومت پاکستان کیلئے یہ آسان نہیں۔ہمارے ملک میں پڑوسی ملک بھارت کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ پاکستان میں استحکام نہیں چاہتا اورہمارے ہر بحران کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے، تاہم اس وقت بھارتی میڈیا میں بھی پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بہت تشویش پائی جارہی ہے، میری نظر سے کوئی ایسی سنسنی خیز رپورٹ نہیں گزری جس میں کسی بھارتی نے پاکستان کی بحرانی کیفیت کے حوالے سے خوشی کا اظہار کیا ہو بلکہ سرحدپار بہت زیادہ فکرمندی دیکھی جارہی ہے۔غیرملکی تجزیہ نگار پاکستان کی حالیہ صورتحال کو 'پرفیکٹ اسٹارم' کا نام دے رہے ہیں یعنیٰ پاکستان بیک وقت مختلف سمتوں سے آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کررہا ہے، ایک طرف پاکستان کو عسکری محاذ پر افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سامنا ہے، دوسری طرف سیاسی محاذ پر حکومت وقت اور سابقہ حکومت کے مابین چپقلش کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے، حکومت گرانے اور حکومت بچانے میں مصروف سیاسی جماعتوں کی توجہ عوامی مسائل سے یکسر ہٹ چکی ہے، معاشی بحران کے باعث گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان کی معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کا براہ راست منفی اثر روپےکی قدرپر پڑ ر ہا ہے،امپورٹ ایکسپورٹ میں غیرمتوازن صورتحال کے باعث اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کرنے کا نتیجہ قرضہ اور پھر قرضے پر بھاری سود کی صورت میں نکلتا ہے، پاکستان پر اس وقت 274بلین ڈالر کابھاری قرضہ چڑھ چکا ہے اور سود مسلسل بڑھتا جارہا ہے،بیرونی قرضوں اورسوددرسود ادائیگیوں میں پھنسا پاکستان اپنے قومی بجٹ کا ایک تہائی حصہ قرضوں کی ری پیمنٹ کیلئے مختص کرنے پر مجبور ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے فارن ریزورز میں صرف 4اعشاریہ3 بلین ڈالرز رہ گئے ہیں، مقامی بینک آن لائن شاپنگ کرنے والوںصارفین کیلئے ڈالر کا ریٹ انٹربینک کی بجائے مارکیٹ ویلیوکے مطابق لگارہے ہیں، مشکلات میں گھری حکومت کے پاس مزید قرضہ لینے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں لیکن سیاسی تناؤ کے باعث عالمی ادارے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہیں۔عالمی میڈیا کے مطابق پاکستان کو ایک اور بڑا چیلنج کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں درپیش ہے،گزشتہ سال طوفانی موسلادھار بارشوں اور سیلاب سے تیس بلین ڈالرز کا نقصان ہوا،تاہم یہ خوش آئند امر ہے کہ عالمی برادری نے جنیوا کانفرنس میں پاکستان کوسیلاب سے متاثرہ افراد اور تعمیرنو کیلئے ساڑھے دس بلین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں حالیہ غیریقینی صورتحال کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن عالمی میڈیا کی رپورٹس سے واضح ہے کہ دنیا کا کوئی ملک پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں ملوث نہیں، پاکستان کو درپیش مسائل کی وجہ ہم خود ہیں اور ان مسائل کا حل بھی ہمارے پاس ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ماضی کی دقیانوسی پالیسیوں کو خیرباد کہتے ہوئے ملکی مفادات کو مقدم رکھیں ،اپنے مسائل کی ذمہ داری بلاوجہ دوسروں پر نہ ڈالیں اور عالمی ایشوز پر سخت احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی دوسرا ہماری موجودہ صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا، اس حوالے سے چانکیہ جی کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ عالمی سیاست میں نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن،یہ صرف اور صرف باہمی مفادات ہوتے ہیں جو ریاستوں کو قریب اور دور لے جاتے ہیں۔

.(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین