الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندانوں کو دھمکیاں دینے پر اسلام آباد کے ڈیوٹی مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کو 2 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ڈیوٹی مجسٹریٹ نویدخان نے 2 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ سنایا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فواد چوہدری کو 27 جنوری کو دوبارہ پیش کیا جائے۔
جسمانی ریمانڈ کے بعد فواد چوہدری کو سی ٹی ڈی کمپلیکس سیکٹر ایچ الیون منتقل کر دیا گیا۔
پراسیکیوٹر نے ملزم کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما فواد چوہدری کو ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
دوران سماعت فواد چوہدری نے مجسٹریٹ سے استدعا کی کہ مجھے 5 منٹ فیملی اور اتنے ہی منٹ اپنے وکلاء سے بات کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ باہر 1500 پولیس اہلکار موجود ہیں، اس کے باوجود کمرہ عدالت میں مجھے ہتھکڑی لگی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے جج کے روبرو کہا کہ میں سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، مجھے عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے مقدمے کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے۔
اس پر فواد چوہدری نے لقمہ دیا کہ الیکشن کمیشن کی حالت تو منشی کی ہوئی ہے۔
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دینا شروع کردیے اور کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کرانے کے تمام اختیارات ہیں، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے مزید کہا کہ فواد چوہدری کی تقریر کا مقصد سب کو اکسانا تھا، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن والوں کے گھروں تک پہنچیں گے۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ فواد چوہدری الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا چاہتے تھے، ملزم کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں عدالت میں الزامات پڑھ رہا تھا تو فواد چوہدری انشاء اللّٰہ اور ماشاء اللّٰہ کہہ رہے تھے، ملزم نے تقریر میں جو کچھ بھی کہا وہ مانا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ کیا فواد چوہدری سے متعلق فیصلہ کرنا درست نہیں، ملزم کی تقریر کے پیچھے موجود لوگوں کا پتا کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کی تقریر کے پیچھے مہم چل رہی ہے، پولیس کو ملزم کے بیان پر ابھی تفتیش کرنی ہے۔
فواد چوہدری نے عدالت کے روبرو موقف اختیارکیا کہ مقدمے میں مجھ پر بغاوت کی دفعہ بھی لگادی گئی ہے، مجھے بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا کی صف میں شامل کردیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ آزادی کےلیے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی ہی باتیں ہوتی تھیں، میں تقریر کر ہی نہیں رہاتھا، میں میڈیا ٹاک کر رہا تھا، میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خلاف تو مقدمہ بنتاہی نہیں ہے، مدعی وکیل کا مطلب ہےکہ تنقید کرنا بغاوت ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا، اگر الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کر سکتے تو مطلب کسی پر تنقید نہیں کر سکتے۔
فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، جو میں بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نہ ملک کی اسٹیٹ ہے نہ حکومت ہے، میں نے کہا تھا نفرتیں نہ پھیلائیں کہ لوگ ذاتی سطح پر آجائیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مجھے لاہور پولیس نے گرفتار کیا، میرا موبائل قبضے میں لیا اور اسلام آباد پولیس کے حوالے کردیا، میں سینیر وکیل، پارلیمنٹیرین اور سابق وفاقی وزیر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں دہشت گرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا، تفتیشی افسر نے مجھ سے کوئی تفتیش نہیں کی، میری گرفتاری غیر قانونی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ افسوس ہے ملکی سیاست میں مخالفین پر کیس بنائے جا رہے ہیں، ہم سیاست میں کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوتے ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ کیس برخاست کیا جائے۔
وکیل علی بخاری نے دوران سماعت کہا گیا کہ عدالت میں فواد چوہدری کو لاہور سے گرفتار کرنا تسلیم کیا گیا ہے، مدعی مقدمہ کی بات مان لی جائے تو مقدمہ تو لاہور میں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق مقدمہ وہاں ہوتا ہے جہاں جرم کیا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ قتل لاہور میں تو مقدمہ کراچی میں کیا جارہا ہو۔
وکیل علی بخاری نے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں تفتیش کی ہے؟ دہشت گردی کا کیس ہے نہیں، پراسیکیوشن کو آخر کرنا کیا ہے؟
فواد چوہدری کے وکیل علی بخاری نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالف کی۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیرجدون نے کہا کہ 124 اے کو عدالت میں ثابت کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، عدالت فیصلہ کرے گی کہ دفعہ 124 اے بنتی ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کو نوٹس دیا ہے یہ تینوں افراد پیش ہی نہیں ہوتے، 124 اے کے خلاف ہم نے عدالت میں پٹیشن دائر کی ہے۔
فواد چوہدری کی ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیشی سے پہلے کمرہ عدالت تبدیل کردیا گیا تھا۔
فواد چوہدری کے بھائی فراز چوہدری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، انہیں آج ہی جہلم میں گرفتاری کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
سماعت کے آغاز میں مجسٹریٹ نوید خان نے کہا کہ کسی طرح فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں آنے دیں۔
اس موقع پر فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی درخواست کی۔
فیصل چوہدری نے مجسٹریٹ سے کہا کہ فواد چوہدری کدھر ہیں؟ گاڑی کہاں ہے؟ ہم انہیں لے آتے ہیں۔
اس پر مجسٹریٹ نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں جگہ بنے گی تو فواد چوہدری کو لے آئیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورٹ میں 15،20 افراد ہوں گے تو فواد چوہدری کو لے آئیں گے۔
اس کے بعد ڈیوٹی مجسٹریٹ عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں واپس چلے گئے ۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکالتے رہے، اس دوران فیصل چوہدری نے پی ٹی آئی کی خواتین ورکرز سے کہا کہ آپ کی فواد چوہدری سے ملاقات بھی کرائیں گے۔
اس سے قبل فواد چوہدری کے وکیل قیصر امام اسلام آباد کی ایف 8 کی عدالت کے کمرے میں پہنچے، پیشی کے موقع پر پولیس اہلکاروں اور پی ٹی آئی کارکنوں میں تلخ کلامی اور دھکم پیل بھی ہوئی۔
پی ٹی آئی اسلام آباد کے رہنما اس دوران پولیس اہلکاروں سے الجھ پڑے، مقامی رہنما اہلکاروں کو دھکیلتے ہوئے کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے۔
فواد چوہدری کی پیشی کےلیے کمرہ عدالت رش ہونے اور جگہ کی تنگی کے باعث تبدیل کردیا گیا۔
ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان اب دوسرے جج کے کمرے میں سماعت کریں گے، عدالت میں پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلا پہنچ گئے ہیں۔
مجسٹریٹ نوید خان نے اس حوالے سے کہا کہ کورٹ روم سیکنڈ فلور پر ہے، دوران سماعت مشکلات ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شبیر بھٹی کی عدالت گراؤنڈ فلور پر ہے، وہاں پر سماعت میں آسانی ہوگی۔
فواد چوہدری کو اب الیکشن کمیشن کے ارکان کو دھمکیاں دینے کے الزام میں گرفتاری کے بعد ڈیوٹی مجسٹریٹ شبیر بھٹی کے کمرہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
اس سے قبل اطلاع آئی تھی کہ فواد چوہدری کو سخت سیکیورٹی حصار میں ایف ایٹ کچہری پہنچایا جائے گا، انہیں سفید چادر ڈال کر پولیس گاڑی میں بٹھایا گیا ہے۔