ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
قطبُ المشائخ، سلطان السالکین، امام الاولیاء، حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ والد محترم کی طرف سے حسینی سید اور والدہ محترمہ کی طرف سے حسنی سید زادے تھے ۔ والد محترم کا اسم شریف سید غیاث الدین ؒ تھا جو قدسی صفت انسان تھے، صوم و صلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار، حافظ قرآن تھے ، والدہ محترمہ کا اسم شریف بی بی ماہ نور تھا۔آپ انتہا ئی صالحہ متقی، پر ہیز گار صوم و صلوٰۃ کی پا بند حافظہ قرآن خاتون تھیں۔
آپ کی والدہ ماجدہ بیان فرماتی ہیں کہ جب معین الدین میرے شکم میں تھے، تو میرا دل فرحت و انبساط سے معمور تھا، گھر میں ہر طرف خیر و برکت تھی۔ ولادت کے وقت عجیب سی روشنی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ولادت کے بعد میرا بچہ سجدے میں پڑا ہوا ہے اور گھر بھر میں خوش بُو ہی خوش بُو تھی۔آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔
نوسال کی عمر میں آپ نے قرآن شریف حفظ کیا، پھر ایک مدرسے میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم پائی اور علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ علوم باطنی کی تحصیل کی جانب متوجہ ہوئے۔ ابتدائی عمر میں ہی والد ماجد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا اور یتیمی کا یہ داغ ابھی ہرا ہی تھا کہ کچھ عرصے بعد والدہ ماجدہ بھی آپ کو داغ مفارقت دے گئیں۔ صبرو رضا کے ساتھ آپ نے یہ ایام گزارنے شروع کیے اور والد کے ترکے سے ملے ہوئے ایک باغ اور پن چکی کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا۔
ابتدائی تعلیم کازمانہ والد بزرگو ار کے زیر عاطفت گزرا،اس کے بعد سنجر کی مشہور درس گاہ میں داخل ہوئے اور وہیں سے تفسیروحدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ جب خواجہ غریب نوازؒ کی عمر صرف پندرہ سال تھی، آپ اپنے وطن سے رخصت ہوئے، قدم قدم پر بھوک پیاس اور رہزنوں کا خوف دامن گیر ہو تا تھا، اس عمر میں خواجہ غریب نوازؒ کا تن تنہا گھر سے تحصیلِ علم کے لیے نکلنا،دل کی سچی تڑپ اور عظیم جذبے کا عکاس ہے ،نتائج سے بے خوف وخطر،دشوار گزار راہوں اور لق ودق صحراؤں کو عبور کرتے جانبِ منزل بڑھتے چلے گئے۔
اس زمانے میں بغداد ،سمرقند وبخارا اسلامی علوم کے مرکز تصور کیے جاتے تھے ،چناںچہ سب سے پہلے خراسان میں رونق افروز ہوئے ۔خراسان میں ٹھہرنے کے بعد آپ سمر قند جاپہنچے اور وہاں کے نامور بزرگ مولانا شرف الدینؒ سے جملہ علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد سمر قند سے بخارا پہنچے اور وہاں سے شہرۂ آفاق عالم مولانا حسام الدین بخاریؒ کی شاگردی اختیار کی،انہوں نے نہایت محبت اور شوق سے آپ کو تعلیم دی اور چند سالوں میں جملہ علوم دینی وعقلی کی تکمیل کرلی۔
روایات کے مطابق سمرقند وبخارا میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا زمانہ قیام مجموعی طور پر پانچ سال ہے۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد باطنی علوم کی تڑپ آپ کے دل میں پیدا ہوئی اور کیسے ہوئی؟ایک دن آپ اپنے باغ میں مصروف تھے کہ درویش ابراہیم قندوزیؒ مجذوب ادھر آنکلے،آپ نے انگور کے خوشے پیش کیے ، مجذوب نے لعاب دہن سے مس کیا اور واپس کردیے ۔آپ نے کھائے ہی تھے کہ من کی دنیا بدل گئی، سب کچھ راہ حق میں نثار کردیا اور تلاش حق میں نکل پڑے، اسی دوران قرآن مجید حفظ کیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ جب سیر وسیاحت کے درمیان نیشاپور کے قصبے ہارون پہنچے تو وہاں عارف باللہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتیؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی،وہیں ڈھائی سال تک ریاضت و مجاہدے میں مصروف رہے اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔
دورانِ سفر قصبہ سنجار پہنچ کر شیخ نجم الدین کبریٰؒ کی خدمت میں ڈھائی ماہ قیام کرنے کے بعد قصبہ جیل پہنچ کر دوبارہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ سے ملاقات کی اور آپ سے باطنی فیوض وبرکات حاصل کیے۔ بغداد پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ معین الدین چشتیؒ فرماتے ہیں کہ بعدازاں حضرت خواجہ عثمانی ہارونیؒ بغداد واپس تشریف لا کر معتکف ہوئے اور ارشاد فرمایا۔ اس مقام سے چند روز تک باہر نہ آؤں گا، مگر تو چاشت کے وقت آیا کر۔ یہاں خواجہ معین الدین چشتیؒ روزانہ حاضر خدمت ہو کر اپنے مرشد کے ارشاداتِ مبارکہ قلم بند فرمالیا کرتے تھے، اس طرح ایک رسالہ مرتب ہوگیا جو اٹھائیس مجلسوں پر مشتمل ہے۔ اس رسالے کا نام ’’انیس الارواح‘‘ ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ مدینۂ طیبہ سے بغداد اور پھر لاہور پہنچے، وہاں سے سمانا (پٹیالہ کے قریب ایک جگہ) دہلی ہوتے ہوئے پہلی بار اجمیر پہنچے، اس وقت اجمیر کا راجا پرتھوی راج تھا۔حضرت معین الدین چشتیؒنے قیام شہر کے بعد پرتھوی راج چوہان کو دعوتِ اسلام دیتے ہوئے فرمایا۔ اے راجا‘ تیرا اعتقاد جن جن لوگوں پر تھا‘ وہ بحکم خدا مسلمان ہوچکے ہیں۔ اگر بھلائی چاہتا ہے تو، تو بھی مسلمان ہوجا، ورنہ ذلیل و خوار ہوگا۔ سنگ دل پرتھوی راج نے اس دعوتِ حق کو قبول نہ کیا تو حضرت خواجہؒ نے مراقبہ کیا۔ کچھ دیر بعد جب تفکر سے سر اٹھایا تو فرمایا۔
اگریہ بدبخت ایمان نہ لایا تو اسےزندہ گرفتار کر کے اسلامی لشکر کے حوالے کرادوں گا۔کہا جاتا ہے کہ ایک روز ایک مندر میں چلے گئے،وہاں سات پروہت پوجا پاٹ میں مشغول تھے۔ آپ کا پُر جمال اور پُر وقار چہرہ دیکھا تو تڑپ اُٹھے اور قدموں پر گر پڑے ،سب نے اسلام قبول کیا۔ حضرت خواجہ ؒ سب کو حمید الدین کہہ کر پکارتے تھے۔ان میں سے ایک نے ناگور میں سکونت اختیار کرلی اور حمید الدین ناگوریؒ کہلائے۔ (مخزن چشت)
حضرت خواجہ ؒ کی برصغیر میں گزاری ہوئی چالیس سالہ زندگی کا ورق توحیدکے درس اور شریعت کی پاس داری کا آئینہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقویم عقائد وایمان، تہذیب اعمال اور تکریم انسانیت کا مشن اس قدر کامیابی سے جا ری رہا کہ تاریخ ہند کی نظریں آپ کی ذات پر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔ایسا مرشد راہ حیا ت کا کام یاب رہبر ہو تا ہے اور ایسا مرید راہِ صفا میں لائق اعتماد ساتھی بنتا ہے،اسی لیے حضرت عثمان ہارونی ؒ فرمایا کرتے تھے:’’معین الدین محبوب خدااست،مرافخر است برمریدی او‘‘(تاریخ ادبیات مسلمانان پاک وہند)
جما ل احمد جمال
صاحب ایمان و دیں حضرت معین الدین ہیں
مشعل نور یقیں حضرت معین الدین ہیں
ان کی عظمت کے نشاں پھیلے ہوئے ہیں چارسُو
دل میں ہر اک کے مکیں حضرت معین الدین ہیں
شرح انسانی کے خوگر ، حسن داماں کے امیں
خُلق باطن میں حسیں حضرت معین الدین ہیں
رسم دلداری بھی ہے اور اجتناب ذات بھی
ہر ادا میں دلنشیں حضرت معین الدین ہیں
ہر طرف مشہور ہے دست سخا محبوب کا
نازش حسن جبیں حضرت معین الدین ہیں
مسئلوں میں دیں کے ہیں ہر اک قدم باریک بیں
بے گماں باریک بیں حضرت معین الدین ہیں
ہیں جمال حسن سخن میں وہ سراپا دلنواز
ذات میں خود پر یقیں حضرت معین الدین ہیں