• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب اور کے پی میں الیکشن، تمام اسٹیک ہولڈرز تذبذب کا شکار

اسلام آباد (انصار عباسی) تمام اسٹیک ہولڈرز کو پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے الیکشن 90؍ دن میں کرانے کے معاملے پر تذبذب کا سامنا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ جو کچھ بھی آئین پاکستان میں وضع کیا جا چکا ہے اس سے ہٹ کر کوئی اقدام کرنے کیلئے سوچا جا رہا ہے کہ اس کا جواز کیا ہونا چاہئے۔

 عمران خان اور شیخ رشید جیسی اپوزیشن شخصیات نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کا مقررہ وقت کے اندر الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا، اور اسی لیے اپوزیشن والے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

حکمران اتحاد یعنی پی ڈی ایم والے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے اپنی ہچکچاہٹ پر عوامی سطح پر کوئی بات نہیں کر رہے لیکن اتحاد کے حکمران مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ دونوں صوبوں میں الیکشن نہ ہوں اور غیر معینہ مدت کیلئے التوا کا شکار ہو جائیں۔

 الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپریل میں دونوں صوبوں میں الیکشن کرانے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ ان ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ الیکشن میں تاخیر کیلئے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

 الیکشن کمیشن کے زرائع کا کنہا ہے کہ آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد صوبائی گورنرز کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور یہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے نوے دن کے اندر ہوتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے باوجود الیکشن کمیشن نے دونوں گورنرز سے رابطہ کیا اور انہیں الیکشنز کے انعقاد کیلئے ممکنہ تاریخوں کی تجویز دی۔ ان دونوں گورنرز میں سے کسی نے بھی اب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو کوئی جواب دیا ہے۔

 پی ڈی ایم جماعتیں بالخصوص نون لیگ والے کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کو تیار ہیں اور کوئی تاخیر نہیں چاہتے۔ لیکن، نجی بات چیت میں یہ لوگ مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں تاکہ دونوں صوبوں میں الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکیں۔

 رابطہ کرنے پر نون لیگ کے ایک رہنما سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا نوے دن میں الیکشن نہیں ہوں گے تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نہیں۔

پی ڈی ایم کے سینئر رہنما بشمول وزیراعظم شہباز شریف، آصف زرداری اور فضل الرحمان نے اسلام آباد میں گزشتہ روز ملاقات کی اور میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے الیکشن میں تاخیر کا فیصلہ کیا۔

 ملاقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن یہ اطلاعات ہیں کہ ان صوبوں میں مردم شماری اور حد بندی کے تازہ ترین نتائج سامنے آنے کے بعد الیکشن کرائے جائیں گے۔

 پی ڈی ایم کے ایک رہنما کے مطابق، آئین میں لکھا ہے کہ الیکشن اسمبلی تحلیل ہونے کے نوے دن بعد ہوں گے لیکن اگر طے شدہ عرصہ میں الیکشن نہ ہوں تو یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب آئین کے آرٹیکل 254 کے مطابق ہے۔

پی ڈی ایم والے اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ آئین میں یہ نہیں لکھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مختلف وقتوں پر ہونا چاہئیں۔ کہا جاتا ہے کہ عام انتخابات کیلئے آئین میں لکھا ہے کہ صوبوں اور مرکز میں نگراں سیٹ اپ ہونا چاہئے۔

 پی ڈی ایم والوں نے وضاحت پیش کی ہے کہ اگر پنجاب اور کے پی اسمبلی میں الیکشن ابھی ہو جائیں اور قومی اسمبلی کیلئے انتخابات بعد میں ہوں تو شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرانے کیلئے دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اپ نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں دونوں صوبوں میں سیاسی حکومتوں کو اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی 90؍ دن کیلئے ان کی جگہ نگراں سیٹ اپ لایا جا سکتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید