• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کیا آپ نے کبھی وہ فلم دیکھی ہے جس میں ایسا مواد ہوتا ہے جوخاندان کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور دیکھنے کا نہیں ہوتا جس فلم کو خاندان کے بچوں کے سونے کے بعد نہایت بالغ لوگ مل بیٹھ کر دیکھتے ہیں،اس فلم میں ایکشن، تھرل،ماردھاڑ تشدد کے علاوہ غلیظ زبان گالیوں کے ساتھ واہیات گلی کوچوں کے نظارے، برہنہ لباس میں ادائیں دکھاتی ناچتی ہوئی طوائفیں، غنڈے موالی لوگوں کے اشاروں پر ناچتی اور کبھی انہیں اپنے اشاروں پر نچاتیں۔ اسی دوران مارپیٹ اور گالی گلوچ کا بازار گرم رہتا۔ اس کے علاوہ اسلحہ کئی قسم کا بےدریغ استعمال کیا جاتا، چاقو ،چھرے تو عام لوگوں کے ہاتھ میں لہراتے رہتے، بڑے باس قسم کے غنڈوں کے ہاتھ میں گن، بندوق اور رائفل ہوتیں جس سے وہ جسے چاہے جب مرضی قتل کردے۔ پولیس بے بس ہوتی یا پھر غنڈوں کے ساتھ ملی ہوتی، اسی دوران ہر قسم کا نشہ بھی عروج پررہتا، تمام ماردھاڑ ، تشدد، ناچ اور نشے سے فضادھواں دھار رہتی، کوئی قانون یا تہذیب کا یہاں سے گزر نہ ہوتا۔تو آ ج پاکستان کا سیاسی، سماجی اور معاشرتی کلچر یہی تہذیب پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔افسوس کہ اس کیلئے رات میں بچوں کے سونے کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ بچے اوربڑے سبھی اسے دیکھ رہے ہیں اور زیادہ تر تو اس فلم میں رول بھی ادا کر رہے ہیں، فلم میں کام کرنے کو تبھی جی چاہتا ہے جذباتی ہوکرجب قوم کے بچے بچیاں ایسے گانے سنتے ہوں۔ ذر ا گانے ملاحظہ کیجئے۔میں نہیں تو کون بے، بول بول ذرا میں نہیں تو کون بے۔میں۔۔ نہیں تو۔۔ کون؟ ذرا بول ابے کون؟۔دیکھئے ذرا کیسی زبان اور لہجہ ہے وہی کسی گلی کوچے کی ناچ گانے والی کی زبان! ابے ابے اور تو تڑاق سے بولنا، یہ کلچر دیکھ کر ہماری نوجوان و نونہال بیٹیاں کیا سیکھیں گی۔ ان میں سے بہت سی بے لگام ہو جائیں گی، شرم وحیا اور پاکدامنی کا شوق نہ رہے گا یعنی کوئی بہن بیٹی لاجونتی نا ہوگی جب وہ مزید اچھے کلچر کے پرخچے یوں اڑائیں گی جیسے وہ ایکشن فلموں کاہیرو یا ولن داداگیری کے دوران اپنے برے رویئے سے اڑاتا ہے۔ آج کل کی طالبات کے جارحانہ انداز آپ سب نے اس امریکن اسکول جولاہور ڈیفنس میں واقع ہے میں دیکھے ہیں کہ طالبات کاپڑھائی سے کوئی لینا دینا نہیں،ان کے فیشن تو نظر آئے مگران کی یونیفارم اورکتابیں نظر نہیں آئیں، کتابیں جس بیگ میں تھیں وہ اب خالی ہے اس کی جگہ سرخی، پائوڈر اور لالی ہے، ٹیچر بھی ان کے یہ اطوار دیکھ کرغضب ناک نہیں ہوتیں بلکہ خاموش ہی رہتی ہیں۔ سکول کالجز کا ماحول رنگیناں ہی پیدا کرتا ہے۔طالبات کے بعدطلبالڑکوں کی بھی زندگی ایکشن اور ماردھاڑسے بھرپور ہے، بے خوف طالب علم ہاتھوں میں کلاشنکوف تھامے پھرتے ہیں، کبھی ان کے لئے پڑھائی اہم تھی مگر آج ان کیلئے اسلحہ اور ڈرگ اہم ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں اونچی اونچی ڈیک میں غلیظ میوزک سنتے ہیں جس کے الفاظ اور مطلب دیکھئے ذرا کہ لڑکا پوچھتا تیرا بوائے کونسا؟ تو لڑکی جواب میں کہتی کہ وہ جس کے ڈولے شولے ۔ جس پر میران من ڈولے۔جو مجھے پیار کرے گا ۔ کرے گا ہولے ہولے۔آج کل فلمی گانوں کی شاعری کا معیار اس قدر گر گیا ہے کہ لگتاہے یہ شاعری کسی سخنور نے نہیں بلکہ کسی جگت بازنے کی ہے،پاکستان میں سماجی اورمعاشرتی کلچرسے علاوہ سیاسی کلچر بھی ہے جہاں پر تشدد اپنے عروج پر ہے کوئی بڑے سے بڑا ادارہ بھی اس سیاسی منہ زور کلچر کا منہ توڑنا اپنے بس میں نہیں سمجھتا،طاقتور اپنے نشے میں چور بھلا ہی بیٹھا ہے کہ وہ مسلمان بھی ہے اور سے مرنا بھی ہے، ہر کوئی منہ زور گدھا دکھائی دیتا ہے، ہمیں ڈر ہے کہ پاکستان میں لاقانونیت سے معاملہ کہیں کا کہیں چلا جائے گا کیونکہ کوئی ادارہ بھی قانون کی پاسداری سے قاصر ہے، پہلے تو بنیادی مسائل سے نمٹنا ہی مشکل ہو رہا ہے قحط جیسا سماں پیدا کر دیا منہ زور مہنگائی نے،لاقانونیت نے اور اداروں کی بے بسی نے حالات وہاں پہنچا دیئے ہیں جسے جنگل کا قانون کہتے ہیں۔آج اگر بڑے بڑے لوگ قابو میں نہیں آرہے تو عام لوگ بھی پھر حیوانیت پر اترآئیں گے۔پھر شرفا جوچند بچے ہیں ان کا جینااس ملک میں حرام ہو جائے گا۔عام لوگ بھی لوٹ مارشروع کردیں گے انہیں بھی پھر کسی ادارے کااحترام نہیں رہے گا۔ تمام بااختیار جب قانون ہاتھ میں لیں گےتوعام آدمی کوبھی لیناپڑے گا، عام لوگ دید لحاظ بھول جائیں گے تمام وزارتیں اوراختیار ختم ہو جائیں گے لاقانونیت اور حیوانیات کی وزارت بس رہ جائے گی جبکہ ہر کوئی حیوان بن جائے گا۔ پہلے توبات ایکشن فلمیں رات کے درمیانی پہر میں دیکھنے کو ملتی تھیں پھر پورا ملک ایکشن سے بھرپور ملے گا رات دن وہ غدر مچے گا کہ الاماں الاماں بھی نہ کہہ سکیں گے۔ ملک میں انتشار پھیلانےوالو عوام سے کیا دشمنی ہوگئی کہ انہیں بغاوت اور جرائم کی طرف دھکیل رہے ہو، تشدد سے بھرپور فلم بن کر رہ جائے گا یہ ملک! خدارا بچالو اسے تباہی سے کچھ اپنی نسلوں کا ہی سوچ لو۔
یورپ سے سے مزید