• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے

بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر شام

شاید اس رات وہ مہتاب لب جو آئے

ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر

راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے

وہی لب تشنگی اپنی وہی ترغیب سراب

دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے

مصلحت کوشئ احباب سے دم گھٹتا ہے

کسی جانب سے کوئی نعرۂ یاہو آئے

سینے ویران ہوئے انجمن آباد رہی

کتنے گل چہرہ گئے کتنے پری رو آئے

آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیاؔ

جشن غم جاری ہوا آنکھوں میں آنسو آئے

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں

کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں

سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں

ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی

عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں

ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے

وہ وقت جس کی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں

تمام عمر ترے التفات کو ترسا

وہ شخص جو ہدف ناوک غضب بھی نہیں

گلا کرو تو وہ کہتے ہیں یوں رہو جیسے

تمہارے چہروں پہ آنکھیں نہیں ہیں لب بھی نہیں

مفاہمت نہ کر ارزاں نہ ہو بھرم نہ گنوا

ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب تب بھی نہیں

برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا

جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں