• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حافظ عبدالاعلیٰ درانی ۔۔۔۔ بریڈفورڈ
(گزشتہ سے پیوستہ)
جیسےآکسیجن، پودے اور پانی، کیا ہمیں زندگی کے ان لوازمات کو زندگی میں ہی شمار نہیں کرنا ہو گا،وہ بولی ہاں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ان تین کے علاوہ دس ایسی چیزیں اور ہیں جو زندگی کے لیے ضروریہیں یہ ہوگئے دس لوازمات اور یہ لو، گِن لی ایک نعمت، اب قرآن کے دعوے کا کیا کریں جو کہتا ہےتم ایک نعمت نہیں گن سکتے، میں نے کہا تم پھر کنکلیوژن پر جمپ کر رہی ہو،ابھی تو مجھے پانی کے بارے میں بات کرنی ہے اس کے بعدسینکڑوں دوسرے لوازمات کے بارے میں جو میرے علم میں ہیں، وہ ہنس کر بولی یعنی ہماری بات اگلے کئی دن چلے گی، میں نے کہا کئی سال بھی مکالمہ جاری رہے تو کیا فرق پڑتا ہے، ہم اپنے یہاں موجود ہونے کی وجہ ہی تو ڈھونڈرہے ہیں، وہ بولی چلو پھر پانی کی بات کرو، میں نے کہا ٹھیک ہے، اب بیس منٹ میں بولتا جاؤں گا تم سنتی جانا جو سوال ہو اپنے نوٹس میں لکھتی رہوآخر میں پوچھنا۔ اس نے سر ہلاتے ہوئے اپنی نوٹ بک کھول لی اور ایک پیج پر بڑی سی ہیڈنگ ’’مذہبی فضولیات‘‘ لکھ کر اس ہیڈنگ کے نیچے لائن لگا دی، پھر مجھے اپنے لکھے کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو جھینپ کر بولی میں شرمندہ ہوں لیکن مجھے فخر ہےمیں بددیانت نہیں جو دل میں ہو گا وہی کہوں گی، میں نے کہا شرمندگی کی کوئی ضرورت نہیں دیانت ہی چاہیے۔ مجھے یقین ہے میری بات بھی تم اسی دیانتداری سے اپنے دل میں پراسس کرو گی۔ وہ بولی یقیناَ ایسا ہی ہوگا۔ اب تم بیس منٹ بول سکتے ہو میں دخل انداز نہیں ہوں گی، میں نے بولنا شروع کیا، دیکھیے، زندگی جو ایک نعمت ہے، کے ہزاروں لاکھوں یا شاید کروڑوں لوازمات میں سے ایک اہم چیز پانی ہے۔ اب یہ تو سائنس بتا چکی کہ زمین جب بنی اس میں باہر سے جتنا پانی آیا تھا اس کے بعد نہیں آیا۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ پانی باہر سے ہی زمین پر آیا تھا لیکن اس نکتے پر پھر بات کریں گے اسے اپنے نوٹس میں لکھ لو اور غور کرو جب حادثے سے دنیا بن گئی اورمزید پانی بھی نہیں آیا تو پھر زمین پر پانی ختم کیوں نہیں ہوا، اس کی وجہ مبینہ حادثے سے ہی زمین کے گرد بننے والی وہ اوزون کی تہہ ہے جو نہ صرف سورج سے نکلنےوالی مہلک ریڈی ایشن کو زمین پر پہنچ کر زندگی ختم کرنے سے روک لیتی ہے بلکہ اُس پانی کو بھی ایک حدسے اوپر نہیں نکلنے دیتی جو سمندروں سے بھاپ بن کر بظاہر ضائع ہو جاتا ہے، اگر یہ اوزون کی تہہ نہ ہوتی تو زمین کا پانی ختم ہو جاتا، بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جب یہ پانی جو کہ کھارا اور پینے یا خشکی کے پودوں کے قابل نہ تھا،اوپر جاتا ہےتو وہاں بجلیاں کڑکنے سے اس میں نائٹروجن بھی شامل ہو جاتی ہے جو پودوں کے لیے ضروری ہے اور بارشکے ذریعے نیچے آتے ہُوئے اس کا کھارا پن بھی جاتا رہتا ہے۔ کیسا خوبصورت حادثہ تھا کہ اس نے ان باریکیوں کا بھی خیال رکھا، ابھی بات ختم نہیں ہوئی، چونکہ پانی خشکی کا دوتہائی سے بھی زیادہ ہے اس لیے سمندروں سے بھاپ بن کر اُڑنے والا پانی اتنازیادہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سارا نیچے آ جائے تو زمین ڈوب جائے، حادثے نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ چند فیصد بھاپ بارش کی شکل میں بنجر زمین سیراب کیا کرے اورباقی بھاپ اوپر صاف ہو کر برف کی شکل میں نیچے آئے۔ اس میں سے بھی کچھ پگھل جایا کرے باقی گلیشیئرز کی صورت محفوظ ہو جائے اور ان دنوں میں بھی آہستہ آہستہ پگھل کر زندگی کو فلٹرڈ پانی دیتی رہے جب بارشیں نہ ہوں، ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ سمندر کا پانی کھارا ہی کیوں ہے، یہی صاف ہوتا تو زندگی کی حفاظت کے لیےباقی حادثوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی، دیکھئے، اگر سمندر کا پانی کھارا نہ ہوتا تو وہ آبی مخلوقات ہی نہ ہوتیں جو صرف کھارے پانی میں زندہ رہسکتی ہیں اور ان کی زندگی انسانوں سمیت زندگی کی دیگر شکلوں کے لیے بہت ضروری تھی، اب حادثے کا ایک اور کرشمہ دیکھئے کہ سمندر میں موجود زندگی کی حفاظت کے لیے حادثے پر حادثہ یہ ہواکہ پانی جو زمین پر حادثاتی طور پر آیا تھا کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جمے تو نیچے کی بجائے اوپر آتا ہے۔ یعنی اوپر سے جو پانی برف کی شکل میں گلیشیئرز بن کر خشکی پر رہا وہ تو زندگی بچا ہی رہا ہے جو باقی برف سمندر پر گری وہ ڈوبنے یا نیچے جانے کی بجائے پانی کی سطح پر رہتی ہے۔ وہ سطح سردیوں میں موٹی ہو جاتی ہے اور سردیوں میں سردی نیچے پانی میں نہیں جانے دیتی جہاں وہ کروڑوں مخلوقات زندہ ہی نہ رہیں اگر باہر کی شدید سردی سے پانی ایک خاص حد سے ٹھنڈا ہوجائے۔ کتنے کمال کے حادثے ہیں جو مسلسل ایک دوسرے سے مل کر کام کر رہے ہیں اور مزید کوئی ایسا نیا حادثہ بھی نہیں ہُوا جو تسلسل سے ہونے والے حادثوں کا تسلسل اور وہ فریکوئنسی توڑ دے جو ہلکی سی بھی بدلجائے تو وہ زمین پر ہرقسمی زندگی کا آخری دن ہو۔ گویا حادثے میں ایسے کسی حادثے سے ہمیشہ کے لیے بچنے کا انتظام بھی حادثاتی طور پر موجود تھا تاکہ زمین پر حادثاتی طور پر پیدا ہونے والی زندگی کسی حادثے کے باعث ختم نہ ہو جائے۔ دیکھیے، یہ ساری کہانی آسمان کے ہماری زمین سے اڑنے والے پانی کے واپس لوٹ آنے سے شروع ہوئی تھی اور جس دین کی بات میں تم سے کرنے آیا ہوں اس کا بھیجنے والا قرآن میں کہہ رہا ہے کہ ہم نے جو آسمان بنایا اس کی یہ صفت رکھی کہ وہ واپس کرنے والا ہے، وہ جو آنکھیں بڑی کیے سن رہی تھی بولی واؤ یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے، جب اس ملحد لڑکی نے مجھے ٹوکا تو لگا جیسے میں اس منظر سے باہر نکل آیا ہوں جو اللہ کی ایک نعمت کاشمار کرتے ہوئے میرے لاشعور میں چل رہا تھا، یہی طے ہوا تھا نہ، تم اپنے سوالات ’’ مذہبی فضولیات‘‘ والی ہیڈنگ کے نیچے لکھتی رہو گی اور اپنی باری پرپوچھو گی میں نےاس سے پوچھا تو وہ بولی سوری رہا نہیں گیا، یہ بہت سرپرائزنگ ہے کہ قرآن نے تمہارےبقول آسمان کو لوٹانے والا کہا ہے اور ہماری ڈسکشن سے یہ تو واضع ہے کہ اوزون میں پانی لوٹانے والی صفت نہ ہوتی تو زمین پر زندگی پیدا ہی نہ ہو سکتی۔ تبھی مجھے تجسس ہوا کہ دیکھوں قرآن میں آسمان کے لوٹانے کی خصوصیت کا کہاں ذکر ہے۔ میں نے اُسے سورۃ الطارق کی گیارہویں آیت دکھائی، قرآن کے تراجم عمُوماَ الرَّجْعِ کا سادہ سا مطلب کرتےہیں۔ میں نے اسے قرآن کی چھے الگ الگ تفاسیر اور لغت دکھائی تو وہ کہنے لگی ہاں ٹھیک ہے ابھی تک تم اپنا کیس ٹھیک پیش کر رہے ہو۔ آگے دیکھتے ہیں۔ میں بولا لیکن تم اب سوال لکھتی رہو گی اور اپنی باری آنے پر پوچھو گی۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا تو میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا میں تمہیں پانی اور خشکی کا وہ تناسب بھی قرآن میں دکھا سکتا ہوں جو اس وقت زمین پر موجود ہے۔ (جاری ہے)
یورپ سے سے مزید