• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:(سید ابرار حسین، سابق سفیر)
بدقسمتی سے کشمیر گزشتہ چھتر سال سے بھارت کے ظلم وستم کا شکار ہے اور پچھلے تین سال سے تو ان کے لیے موجود اُمید کی ہر کرن کو بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف تو بھارتی افواج نے وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے تو دوسری طرف سیاسی جبر کے ذریعے ان کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں اور مسلمانوں کی آواز دبانے کے لیے یہ سیاسی چالیں گزشتہ سال یعنی سن ۲۰۲۲ میں بھی جاری رہیں ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمان آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے غیر کشمیریوں (خصوصا ہندوؤں) کو وہاں لاکر آباد کیا جارہا ہے۔ اب تک بیالیس لاکھ غیر کشمیریوں کو وہاں کے ڈومیسائل ٹریفکیٹ جاری کیے جاچکے ہیں اور انہیں کشمیر میں ملازمتیں اور زمینیں دی جا رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک جعلی حلقہ بندی کمیشن کے ذریعے انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کی گئی ، ہندو اکثریتی علاقے جموں کی چھ نشستیں بڑھادی گئیں جبکہ مسلم اکثریتی وادی کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی ۔ اس کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے عارضی رہائشیوں کو بھی وہاں ووٹ دینے کا حق دے کر سات لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا۔
ان سب تیاریوں کے بعد حال ہی میں بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مئی ۲۰۲۳ میں انتخابات کا امکان ہے۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ اس سال بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلی دفعہ ایک ہندو وزیر اعلیٰ بنوانے کی کوشش میں ہے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو کسی کٹھ پہلی مسلمان کو بھی لایا جا سکتا ہے جو اُن کے ہاتھوں میں کھیلتار ہے۔ اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی کے ذریعے بھارت کے ۵ اگست ۲۰۱۹ کے اقدامات کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی جائے گی۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ۲۰۲۲ میں بھی جاری رہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے اس سال دو سو چودہ (۲۱۴) کشمیریوں کو شہید کیا۔ ستاون (۵۷) زیر حراست افراد کو جیل میں یا جعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔ سید علی گیلانی مرحوم کے داماد اور حریت رہنما الطاف احمد شاہ جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے، مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے اکتوبر ۲۰۲۲ کو تہار جیل میں وفات پاگئے۔ تقریباً ساری کشمیری قیادت اس سال زیر حراست رہی ۔ ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ چار ہزار کشمیری مختلف جیلوں میں بندر ہے۔ حریت پسند کشمیریوں کی جائیدادوں پر قبضے کی مہم بھی اس سال نہایت شدت سے جاری رہی ۔ اب تک ایک ارب بھارتی روپے کی جائیدادوں کو ضبط کیا جا چکا ہے اور ۱۸۸ مزید جائیدادوں کو ضبط کرنے کے لیے کا روائی جاری ہے۔ ان میں سید علی گیلانی کا ایک گھر بھی شامل ہے۔ بھارت جسے دوماہ پہلے ایک سال کے لیے جی ۲۰ کی سر براہی ملی ہے ، اب اس کوشش میں ہے کہ آئیندہ اپریل اور مئی میں جی ۲۰ کے کچھا جلاس سرینگر، لیبہ اور مقبوضہ کشمیر کے چند دوسرے علاقوں میں کروائے۔ ایسا کر کے بھارت یہ دعویٰ کرے گا کہ شریک ممالک نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ مان لیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی راگ الا پے گا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بالکل معمول کے مطابق ہیں۔
ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ ، کشمیری تحریک آزادی کو دہشت گردی کا نام دینے کی مذموم بھارتی مہم بھی پوری شدت سے جاری ہے۔ چنانچہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کی وجہ سے پاکستان پر دہشت گردی کی مدد کے بے بنیاد الزامات کی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہ آسٹریا میں ایک بار پھر ان قبیح الزامات کا اعادہ کیا۔
لیکن بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ۲۰۲۲ میں بھی کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی منظر نامے کا حصہ رہا۔ ۱۱ دسمبر ۲۰۲۲ کو اسلامی تعاون کی تنظیم یعنی او آئی سی کے سیکریٹری جنرل جناب حسین براہیم طٰہ اور کشمیر رابطہ گروپ کے رکن ممالک کے سفراء نے مظفر آباد اور کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ اس دورے سے جہاں اس وفد کو حقائق سے آگاہی ہوئی وہیں مسئلہ کشمیر سے او آئی سی کی دلچسپی کا اظہار بھی ہوا۔ امید ہے کہ اسلامی وزرائے خارجہ کے آئندہ اجلاس میں اس دورے کی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے بھی حسب معمول اپنی ملاقاتوں اور تقریروں میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ چنانچہ وزیر اعظم کے دورہ چین کے اختتام پر ۲ نومبر ۲۰۲۲ کو جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں چین نے اس بات کا اعادہ کیا کی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر ، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور باہمی معاہدوں کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کے جلد حل پر زور دیا۔
مختصر یہ کہ بھارت کی مکروہ سیاسی چالیں اور بھیانک مظالم نہ تو مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی منظر نامے سے ہٹا سکے اور نہ ہی کشمیری حوصلوں کو سرنگوں کر سکے۔
زخم کشمیر سے رس رہا ہے لہو، ہر طرف گولیاں بندشیں کر فیو
ہے جُھکانے میں نا کام پھر بھی عدو، آج بھی جراءت حیدری ہے بہت
ملک بھر سے سے مزید