غالب اور اقبال کے بعد انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو اردو کا بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک ’’میم ‘‘ایلس جارج سے شادی کی تھی، جو بیسویں صدی کی تیسری دھائی میں رضا کار کے طور پر متحدہ ہندوستان میں تشریف لائی تھیں۔ ان کی ایک بہن کی شادی سابق گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاثیر سے ہوئی تھی۔ فیض احمد فیض ان دنوں ایم او کالج امرتسر کالج میں پڑھاتے تھے۔ فیض احمد فیض کا نام اور شخصیت اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہو چکا تھا۔ ایلس اور فیض احمد فیض میں دوستانہ مراسم قائم ہوئے تو دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا لیکن فیض کے والدین نے اس پر سخت اعتراض اٹھا دیا کہ وہ ایک ’’جٹ ‘‘کی ’’میم‘‘ سے شادی نہیں کر سکتے۔
ایلس فیض نے اپنی رحلت سے پہلے معروف ادیب شاعر افتخار عارف کو ایک انٹرویو کے دوران اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا ’’ جب ہم دونوں کی دوستی ہوئی تو یہ ایک حد پر آ کر رک گئی۔ میرے والدین خود پریشان تھے کہ تم ایک سال کے لئے ہندوستان گئی ہو تو واپس آجاؤ لیکن میں نے ان سے فیض کے ساتھ شادی کا ذکر کیا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئے، بہرحال کہا کہ ٹھیک ہے تم خوددیکھ لو۔ لیکن دوسری بات یہ ہوئی کہ فیض صاحب کے والدین جو سیالکوٹ کے چودھری تھے اوپر سے جٹ اور پنجابی تھے۔
انہوں نے اس پر اعتراض لگا دیا کہ وہ ایک میم سے شادی کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ پنجابی جٹ اور چودھری ہونے کی وجہ سے وہ غیر خاندان اور برادری سے باہر انکی شادی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس صورتحال کے پیدا ہونے پر ہم دونوں پریشان ہوئے، میرے والدین کو علم ہوا تو مجھ سے پوچھا، جس پر میں نے کہا کہ اب میں انتظار کروں گی ۔انہی دنوں فیض صاحب کو کیمبرج میں پڑھائی کے لئے جانا تھا ،میں نے سوچا کہ یہ اچھا موقع ہے مگر فیض صاحب کے والدین اس پر سخت معترض تھے۔
اس دوران جنگ عظیم دوئم بھی شروع ہوگئی تھی، پھر جب ہم سری نگر گئے تو وہاں ہم دونوں کا نکاح ہوا جو شیر کشمیر شیخ عبداللہ نے پڑھایا تھا۔ (مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی ) یہ دو لوگوں کی بارات تھی، جس میں ایک فیض کے بھائی اور دوسرا ان کا دوست تھا ۔ ‘‘ایلس فیض نے ۔ فیض صاحب کو ٹوٹ کر چاہا تھا ،ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کی وجہ یہ بھی تھی کہ ایلس فیض ذہنی طور پر فیض صاحب سے ہم آہنگ تھیں، جس کی فیض صاحب بے حد قدر کرتے تھے۔
ایلس فیض نے قیام پاکستان کے بعد کئی برس تک سخت ترین آزمائش میں وقت گزارا، فیض صاحب پر بغاوت کا مقدمہ بھی بنا ،صحافتی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران انہیں سخت مالی اور ذہنی آزمائش کا زمانہ دیکھنا پڑا لیکن ایلس نے ماتھے پر شکن تک نہیں ڈالی بلکہ پاکستان میں انسانی خدمت خاص طور پر ہیومن رائٹس کمیشن کے بانی رکن کی حیثیت سے بے مثال خدمات انجام دیں۔ ان کا انتقال 2003 میں ہوا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی