• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ہائیکورٹ کا 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم آئین سے متصادم

اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد) لاہور ہائیکورٹ نے 10فروری کو اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 90یوم کے اندر تحلیل شدہ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرانے کا جو حکم دیا ہے اسکے بارے میں جنگ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور محمد دلشاد سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ زمینی حقائق کے برعکس ہے اور آئین کے آرٹیکل 105سے متصادم ہے۔ کنور محمد دلشاد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو صوبے کے گورنر بلیغ الرحمان سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ تمام عدالتیں آئین کے طابع ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 105کے تحت ہر صوبے کے گورنر کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ کا تعین کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اسکے ساتھ ہی وفاقی وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نئے الیکشن کے انعقاد کیلئے ضروری فنڈز دینے سے معذرت کر لی ہے۔ اسی طرح امن و امان کے حوالے سے انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے صوبائی الیکشن کے عملے کو سکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان حالات میں ہماری معزز لاہور ہائیکورٹ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسکے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کو بھی مدنظر رکھنے کا پابند ہے جس کے تحت ڈیجیٹل خانہ/مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں لازمی ہیں اور پرانی حلقہ بندیوں پر آئین کے آرٹیکل 51کے تحت انتخابات نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر نئی مردم شماری کے نتیجے میں پنجاب کی آبادی میں اضافہ ہو گیا تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 63ون کے تحت پاپولیشن کے تناسب کو دیکھتے ہوئے آئین میں ترمیم کرنی پڑیگی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ عبوری مردم شماری کے تحت 2018ء کے جنرل الیکشن ہوئے۔
اہم خبریں سے مزید