• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔ خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

"تذکرہ غوثیہ" میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز ،مرزا رجب علی بیگ سرور مصنف، فسانہ عجائب سے ملے۔ اثناء گفتگو میں پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش" کی۔ سرور نے "فسانہ عجائب" کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ، خود مصنفِ "فسانہ عجائب" استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولاقوۃ" اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب" کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، ’’ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔‘‘ دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت ، یہ امر مجھ سے بےخبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں، چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب" کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے،غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔ دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں :

"مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔" لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔

حوالہ کتاب : "غالب"

از : مولانا غلام رسول مہر