لندن (پی اے) ٹوری رکن پارلیمنٹ نس غنی کی اسلاموفوبیا کا شکار ہونے کی شکایت پر وزیراعظم کے ایتھکس مشیر تحقیقات کررہے ہیں، ٹوری رکن پارلیمنٹ نس غنی نے شکایت کی تھی کہ انھیں مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے برطرف کیا گیا۔ لیبر پارٹی نے کہا ہے کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان کی شکایت پر جنوری میں شروع کی جانے شکایت پر تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں کی جاسکی ہے۔ تحقیقات میں تاخیر سابقہ وزیراعظم بورس جانسن کے ایتھکس کے مشیر لارڈ گیڈٹ کے استعفیٰ کے سبب ہوئی ہے، انھوں نےجون کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور دسمبر تک ان کی جگہ کسی کا تقرر نہیں کیا گیا تھا۔ دسمبر میں وزیراعظم سوناک نے Laurie Magnusکا تقرر کیا ہے، جو اب اس تفتیش کو مکمل کریں گے۔ لیبر پارٹی کی قائد Anneliese Dodds تفتیش جلد مکمل کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تفتیش میں تاخیر سے اسلاموفوبیا پر قابو پانے کے حوالے سے کنزرویٹو حکومت کی نیت کا پتہ چلتا ہے۔ تحقیقات کے حوالے سے سوال پر مساوات اور حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ Marcial Boo نے کہا کہ وہ سر Laurie کے ساتھ اس کی پیشرفت پر نظر رکھیں گے۔ رکن پارلیمنٹ نس غنی نے سب سے پہلے گزشتہ سال جنوری میں سنڈے ٹائمز میں یہ الزام عائد کیا تھا، 2018میں جب ان کا محکمہ ٹرانسپورٹ میں تقرر کیا گیا تھا تو وہ دارالعوام میں بولنے والی پہلی مسلمان وزیر تھیں۔ فروری 2020میں جب بورس جانسن نے حکومت میں معمولی ردوبدل کے دوران ان کو ہٹایا تو انھوں نے کنزرویٹو پارٹی کی وہپ سے اپنی برطرفی کی وجہ دریافت کی تھی اور بتایا تھا کہ مجھے بتایاگیا کہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں کابینہ میں ردوبدل کیلئے ہونے والی میٹنگ میں مسلمان ہونے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا، مسلمان خاتون وزیر کی حیثیت سے میرے ساتھی خوش نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میں پارٹی کی وفادار نہیں ہوں اور اسلاموفوبیا کے الزامات پر میں نے پارٹی کا اچھی طرح دفاع نہیں کیا۔ انھوں نے اخبار کوبتایا تھا کہ انھیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انھوں نے اصرار کیا تو انھیں اچھوت بنا دیا جائے اور ان کا کیریئر اور ساکھ تباہ ہوجائے گی، جس کے بعد میں نے اس پر اصرار ترک کردیا تھا لیکن پارٹی کے چینلز پر متعدد مرتبہ اس مسئلے کو اٹھایا، میں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ طریقہ کار پر عمل کیا لیکن جب طریقہ کار پر عمل سے کام نہیں چلا تو میرے پاس اپنا کیریئر برقرار رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ بعد میں ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ کوئی دن نہیں جاتا جب میں یہ نہ سوچتی ہوں کہ آخر سیاست میں میرا کیا فائدہ۔ مارک اسپنسر نے، جو اس وقت چیف وہپ تھے، کہا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ وہپ کے عہدے پر آنے والے کسی اور کو اس معاملے میں گھسیٹا جائے۔ انھوں نے الزام کو مکمل غلط اور توہین آمیز قرار دیا۔ رکن پارلیمنٹ شرووڈ کا کہنا ہے کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ نس غنی نے یہ معاملہ کنزرویٹو پارٹی میں تحقیقات کیلئے اٹھانے سے گریز کیا۔ ان الزامات کے بعد اس وقت کے وزیراعظم بورس جانسن نے کیبنٹ آفس کو انکوائری کر کے یہ حقیقت معلوم کرنے کی ہدایت کی تھی، ہوا کیاتھا؟۔ اس کے بعد نس غنی کو بزنس منسٹر بنا دیا گیا تھا جبکہ اسپنسر کو وہپ کے عہدے سے ہٹا کر محکمہ ماحولیات میں بھیج دیا گیا تھا۔ اب یہ تحقیقات شروع ہوئے ایک سال گزر چکا ہے۔ بی بی سی کو بتایا گیا کہ اب سر Laurie اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ EHRC کے چیف ایگزیکٹو Marcial Boo کا کہنا ہے کہ وہ کنزرویٹو پارٹی میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے 2021میں رپورٹ تیار کرنے والے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، اگر ہم اس ضمن میں پیش رفت پر مطمئن نہ ہوئے تو اپنے قانونی اختیارات استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔