بچوں سے جڑے چند مسائل عام ہیں جیسے کہ
٭ آپ کا چار سالہ بچہ اپنی بات منوانے کے لیے ضد پر اَڑ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر بار آپ کا بچہ کسی نہ کسی طرح سے اپنی بات منوا ہی لیتا ہے۔
٭ آپ کا بچہ اُس وقت آپ کی بات کو نظر انداز کر دیتا ہے جب آپ اسے کوئی ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے وہ کرنا نہیں چاہتا۔
٭ جب آپ بچے کو کسی کام سے منع کرتے ہیں تو وہ غصے میں رونا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔
شاید آپ سوچیں کہ اِس عمر میں تو بچے ایسا کرتے ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ بڑا ہو کر ایسا نہیں کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ چھوٹے بچوں کو کہنا ماننا سکھا سکتے ہیں۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ جاننے سے پہلے آئیں، دیکھیں کہ بچوں کے کہنا نہ ماننے کی ایک وجہ کیا ہے۔
مسئلے کی وجہ
جب آپ کا بچہ پیدا ہوا تھا تو اس کی دیکھ بھال کرنا گویا آپ کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔ آپ ہر وقت اس کا خیال رکھنے اور اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے حاضر رہتے تھے۔ جیسے ہی وہ روتا تھا، آپ بھاگے بھاگے اس کی ہر ضرورت کو پورا کرتے تھے۔ چونکہ ننھا بچہ اپنے لیے کوئی کام نہیں کر سکتا اس لیے یہ مناسب ہے کہ والدین اس کے لاڈ اُٹھائیں۔ بِلاشُبہ ننھے بچے کو اپنے والدین کی توجہ کی مسلسل ضرورت ہوتی ہے۔
چونکہ والدین اپنے ننھے بچے کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں اس لیے بچے کو لگتا ہے کہ وہ گھر کا مالک ہے اور اس کے والدین کی زندگی کا مقصد بس اس کی خدمت کرنا ہے۔ لیکن پھر دو سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے بچے کو لگتا ہے کہ اس کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ اب والدین کو اس کا نہیں بلکہ اسے والدین کا کہنا ماننا چاہیے۔ یہ بات بچے کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتی ہے۔
کچھ بچے تو اس وجہ سے بات بات پر غصہ کرنے لگتے ہیں اور کچھ تو اپنے ماں باپ کی بات سننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اس صبر آزما گھڑی میں والدین کو ایک نیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے اِختیار کو عمل میں لاتے ہوئے بچے پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ اس سے کیا توقع کرتے ہیں۔ لیکن مضمون کے شروع میں درج مناظر کے مطابق اگر بچہ آپ کے اِختیار کو تسلیم نہیں کرتا تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اِختیار کو عمل میں لائیں۔ آپ کا بچہ اسی صورت میں آپ کا کہنا مانے گا اگر آپ اس پر واضح کریں گے کہ اِختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا پیار سے اپنے اِختیار کو استعمال کریں۔ ماہرین خیال کرتے ہیں کہ لفظ اِختیار میں سختی سے پیش آنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔
بچے کی اِصلاح کریں۔ ایک لغت کے مطابق اِصلاح ایسی تربیت ہے جس سے ایک شخص فرمانبرداری کرنا اور خود میں ضبط نفس پیدا کرنا سیکھتا ہے۔ یہ تربیت اکثر قوانین کی صورت میں دی جاتی ہے جنہیں توڑنے پر سزا ملتی ہے۔ بِلاشبہ والدین کو بچوں کی مناسب حد تک اصلاح کرنی چاہیے اور کبھی بھی ان پر تشدد یا ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ والدین بچے کی اصلاح اس طرح کریں کہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہی نہ ہو۔ بچے پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ اگر وہ غلطی کرے گا تو اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ یوں اسے خود میں تبدیلی لانے کی ترغیب ملے گی۔
واضح ہدایات دیں ۔ بعض والدین اپنے بچوں سے صرف درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کا کہنا مانیں، مثلاً شاید وہ کہیں: اگر آپ چاہیں تو برائے مہربانی اپنے کمرے کو صاف کریں۔ شاید والدین سوچیں کہ اس طرح بات کرنے سے وہ خوش اخلاقی ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے بچوں کی نظر میں والدین کے اختیار کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ فیصلہ کرنے کی کھلی چھٹی بھی مل جاتی ہے کہ آیا وہ اپنے ماں باپ کی درخواست پر عمل کریں یا نہیں۔ لہٰذا اپنے اختیار سے دست بردار ہونے کی بجائے بچوں کو صاف سیدھے لفظوں میں ہدایات دیں۔
اپنی بات کے پکے رہیں۔ اگر آپ کسی بات کے لیے نہ کہتے ہیں تو اپنی بات پر قائم رہیں۔ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ پہلے سے بات کریں کہ آپ بچے سے کیا کہیں گے اور پھر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اگر آپ بچے کو بتاتے ہیں کہ فلاں کام کرنے پر اسے سزا ملے گی تو اپنی بات کو پورا کریں۔ بچے کو بحث نہ کرنے دیں اور نہ ہی لمبی چوڑی وضاحت کریں کہ آپ نے ایک فیصلہ کیوں کِیا ہے۔ اگر آپ ہاں کی جگہ ہاں اور نہیں کی جگہ نہیں کہیں گے تو آپ اور آپ کے بچے دونوں کے لیے آسانی ہوگی۔
پیار سے پیش آئیں۔ خاندان ایک ایسا انتظام نہیں جس میں ہر معاملے میں بچے کی رائے لی جائے اور نہ ہی یہ ایک ایسا انتظام ہے جس میں بچے کی رائے بالکل نہ لی جائے۔ اس کی بجائے یہ خدا کی طرف سے ایک ایسا بندوبست ہے جس کے تحت والدین اپنے بچوں کی پیار سے تربیت کرتے ہیں تاکہ وہ اچھی شخصیت کے مالک بنیں۔ یقین مانیں، جب آپ اپنے بچوں کی اصلاح کریں گے تو وہ فرمانبرداری سیکھیں گے اور آپ کی بانہوں میں تحفظ محسوس کریں گے۔