• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے آپ سب کومیری طرف سے ہولی کی شبھ کامنائیں، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں ہندو دھرم کا سب سے اہم تہوار ہولی سات مارچ کومنایا جاتاہے، رواں برس ہولی کا تہوار اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ شب برات کی مقدس رات بھی ہے اور عالمی برادری آٹھ مارچ کو خواتین کے حقو ق کی حفاظت کیلئے انٹرنیشنل وومن ڈے کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کررہی ہے۔بلاشبہ ملک کی موجودہ صورتحال روز بروز گمبھیر ہوتی جارہی ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ایک نظریاتی ملک جسے دنیا کےلئے ایک رول ماڈل بن کر سامنے آنا تھا، آج آزادی کے 76سال بعد اقتصادی بحران، سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھتے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالتے، غور وفکر اور گفت و شنید کے بعد موثرحکمت عملی کا تعین کرنا تو ہمارے مزاج میں جیسے شامل ہی نہیں، آج جبکہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ملکی صورتحال غیریقینی ہوتی دیکھ رہے ہیں، اس وقت عالمی تجزیہ نگار، تھنک ٹینک اور ریسرچ ادارے پاکستان کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کا ڈیفالٹ کی طرف جاناکوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ناکام معاشی پالیسیوں کی ایک کلاسیکل مثال ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے دنیا کا کوئی بھی ملک ، بزنس مین یا ادارہ بینک سے قرضہ لے کر منافع بخش سرگرمیوں میں لگانے کی بجائے غیرضروری کاموں میں خرچ کردیتا ہے اور دیوالیہ ہونے کے بعد سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، پاکستان دنیا کا پہلا ملک نہیں جو ایسے بدترین بحران کا شکار ہورہا ہے، ایسی صورتحال کا سامناماضی میں سری لنکا، زمباموے، ونیزویلا، یونان سمیت مختلف ممالک کرچکے ہیں ، بالخصوص جنگ عظیم دوئم میں شکست خوردہ جرمنی اور جاپان آج معاشی سپرطاقت ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ چاہے کوئی ملک ہو، کوئی بزنس ہو یا کوئی عام فرد ہو ، اس کو اپنی بقا کیلئے پیسے کمانے پڑتے ہیں، پھر اپنی کمائی میں سے خرچہ کرناہوتا ہے اورسب سے اہم یہ کہ خرچے کو کنٹرول کرنے سے بچت ہوتی ہے،اس بچت سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے، اسے منافع بخش کاروبار میں لگاکر مزید پیسہ حاصل کیا جاتاہے،اسی طرح اگر کمائی کم ہے اور خرچ زیادہ ہیں تو پھر قرضوں کی دلدل میں دھنسنا ہی مقدر بن جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان قائداعظم کی ایک سال بعد وفات کے بعد سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا، آنے والی حکومتوں نے معاشی ترقی کیلئے امریکہ کی جانب دیکھاجبکہ نہ ہی ریاستی سطح پر کاروباری سرگرمیوں کیلئے کوئی دیرپا پالیسی بنائی گئی اور نہ ہی مقامی انڈسٹری کو پروان چڑھایاگیا۔ یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں کہ اگرماضی میں معاشی ترقی کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا گیا تو پھر پاکستان گزشتہ 76سالوںمیں سروائیوو کیسے کر گیا؟امریکہ نائن الیون کے بعد ہمارے پڑوس افغانستان میں آیا تو جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں پاکستان پھر سے فرنٹ لائن اتحادی بن گیا اور ملک میں ڈالر آنے لگ گئے،تاہم امریکہ کو افغانستان میں بیس سال رہنے کے بعدآخرکار جانا پڑاتو ہماری علاقائی اہمیت محفوظ انخلاء تک محدود ہوتے ہوتے ختم ہوگئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اپنے اندرونی مسائل سمیت دیگر تنازعات میں الجھا ہوا ہے، روس یوکرائن جنگ پر مغربی قوتوں نے توجہ مرکوز کرلی ہے۔ پاکستان کا ماضی میں امریکہ اور دوست ممالک کی ا مداد ا یا پھر بھاری قرضوںپر انحصار رہا ، تاہم عالمی سطح پر صورتحال یکسر بدل چکی ہے اوہمارا عالمی ایشوز پر کوئی کردار نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے ملک کامعاشی مستقبل آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے جسکی کڑی شرائط پورا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں،اگرہماری آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہوجاتی ہے تو عالمی برادری بھی ہمارا ہاتھ تھامے گی، بصورت دیگر ہم مزید اقتصادی بحران کاشکار ہوجائیںگے۔ میرے خیال میں ہر بحران اپنے اندر مواقع لے کر آتا ہے، آج ہم مسائل میں گھرے ہوئے ضرور ہیں لیکن ہم مضبوط بن کر نکل سکتے ہیں بشرطیکہ ہماری نیت صاف ہو اور ہم صحیح سمت کی جانب گامزن ہوں، آج ہم ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں لیکن جلد ہی مالک کے کرم سے ہم آزمائش کی اس گھڑی سے نکل آئیں گے۔یہ صورتحال ہم سب کیلئے ایک سبق ہے کہ ہم حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے رہیں، ماضی میں نہ الجھے رہیں،دورِ جدید کی ایجادات سے بہرہ ور ہوں، قرضوں سے حتی الامکان دور رہیں اور اپنےاخراجات کنٹرول کریں، یہ قانونِ فطرت ہے کہ ا پنے وسائل پر انحصار کرنے والےہمیشہ خوشحال رہتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین