• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک مسجد میں شبِ معراج اور شبِ براءت کے موقع پر صلاۃ التسبیح کی نماز رات دو یا ڈھائی بجے ادا کی جاتی ہے ،جبکہ امام مسجد کا کہنا ہے کہ بعد نماز عشاء مختصر پروگرام کرکے صلاۃ التسبیح پڑھ لی جائے، تاکہ اگلی صبح نمازِ فجر اور کام پر جانے والے لوگوں کو آسانی رہے، صلاۃ التسبیح کا مناسب وقت کیا ہے ؟(محمد جمشید ، کراچی)

جواب: صلوۃ التسبیح کی نماز کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے، مکروہ اوقات کے علاوہ دن اور رات میں جب چاہیں، پڑھی جاسکتی ہے، اگر ہوسکے تو روزانہ صلوۃ التسبیح پڑھ لی جائے، یا ہر جمعہ کو ایک مرتبہ، یا ہر مہینے میں ایک مرتبہ، یا ہر سال میں ایک مرتبہ، یا کم سے کم زندگی میں ایک مرتبہ پڑھ لی جائے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے(صلاۃ التسبیح کی بابت) فرمایا: ترجمہ:’’ اگر آپ سے ہو سکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو مہینے میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک بار ہی پڑھ لیں، (سُنن ابن ماجہ: 1387)‘‘۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ صلاۃ التسبیح کی چار رکعات کی بابت فرمایا: ہر غیر مکروہ وقت میں یہ نماز پڑھ سکتاہے ، ہرروز دن یا رات میں ایک مرتبہ، اگریہ نہ کرسکے تو ہفتے میں ایک مرتبہ یا جمعہ کے دن پڑھے یا مہینے میں ایک مرتبہ یا زندگی میں ایک مرتبہ (ہی )پڑھے ‘‘۔

مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مُعلّٰی‘‘ میں فرمایا: فتاویٰ ہندیہ میں مضمرات کے حوالے سے ہے کہ (صلاۃ التسبیح) ظہر سے پہلے پڑھی جائے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد2،ص:27)‘‘۔یہ درحقیقت انفرادی طور پر اداکی جانے والی عبادت ہے ،باجماعت ادائیگی کے لیے اعلان کرنااور مشتہرکرنا ’’تداعی‘‘ ہے، نوافل باجماعت بالتداعی اگر دائماً یعنی ہمیشہ ہوتو فقہاء نے اسے مکروہ لکھا ہے دائماً نہ ہو، بلکہ سال میں ایک دومرتبہ ہو،تویہ بہت سے علمائے مُتقدمین سے ثابت ہے ،جن میں حضرت لقمان بن عامر ،خالد بن معدان اورامام بخاری کے استاذ اسحاق بن راہویہ وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین شامل ہیں۔

آپ اپنے مقتدیوں کی سہولت کے مطابق صلاۃ التسبیح کا وقت رکھ سکتے ہیں، صرف صلاۃ التسبیح میں شامل ہونے والے لوگ سال بھر بقیہ نمازوں میں غائب رہتے ہیں، اُن کا ذہن بنایئے کہ پنج وقتی نماز فرض ہے ،جس ذوق اور شوق کے ساتھ لوگ صلاۃ التسبیح میں شامل ہوتے ہیں، اس سے بڑھ کر پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ عبادات میں حدودشرع کے اندر رہتے ہوئے باجماعت فرائض میں بھی لوگوں کے احوال کی رعایت ضروری ہے ،چہ جائے کہ نوافل کی بات ہو، حدیث پاک میں ہے:

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبیان کرتے ہیں: ترجمہ:’’ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ ! اللہ کی قسم! میں فلاں شخص (یہ اس جگہ کے امام ہوں گے) کی وجہ سے صبح کی (باجماعت) نماز چھوڑ دیتاہوں، کیونکہ وہ ہمیں طویل نماز پڑھاتے ہیں ، پس میں نے اُس دن سے پہلے نبی کریم ﷺ کو اتنے غضب سے نصیحت کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کچھ لوگ (باجماعت نماز کو طول دے کر) دوسروں کو (عبادت) سے مُتَنفّر کرتے ہیں، پس تم میں سے جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو (باجماعت نمازمیں) اختصار سے کام لے ، کیونکہ ان لوگوں میں ضعیف ، بوڑھے اورکام کاج والے لوگ ہوتے ہیں،(صحیح بخاری:702)‘‘۔

مزید یہ کہ صلوٰۃ التسبیح کی نماز باجماعت پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے، ہم اسے لوگوں میں دین کی طرف رغبت کا سبب بننے کے باعث اس کے جواز کی بات کرتے ہیں، لیکن اسے کسی کے لیے ضروری نہیں سمجھتے، اپنے نوافل ہر کوئی انفرادی پڑھ سکتا ہے، وہ اُمور جو اباحت کے درجے میں ہیں، انھیں نزاع کا باعث بنانا مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔ جب نوافل کی جماعت کامسئلہ ہی مختلف فیہ ہے ،تواس کے لیے شریعت میں وقت کیسے مقرر کیا جاسکتا ہے، یہ لوگوں کی سہولت پر منحصر ہے۔