شمائلہ رفیق
جدید ذرائع ابلاغ اور موجودہ سائنس، ٹیکنالوجی کے دور میں آج والدین کے لئے فرائض کی ادائیگی کافی مشکل ہوگئی ہے۔ بچوں کی تربیت بہت ہی صبر آزما ،طویل المیعاد اور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ تعلیم وتربیت والدین سے ہمہ وقت تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ جس اہم قیمتی شے کی متقاضی ہے وہ ’وقت‘ ہے۔ والدین اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گزاریں کیونکہ اگر بچوں سے تعلق وربط قائم ہوجائے گا تو تربیت کاعمل آسان اور موثر ہوجائے گا۔
جسمانی نشوونما:
بچے کی ذہنی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کی جسمانی صحت کا اچھی طرح خیال رکھاجائے کیونکہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہوتا ہے۔ اس سے غفلت برتنے کے نتیجے میں بچے بیماریوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔
زبان اور ذہنی نشوونما:
جسمانی نشوونما کی طرح ذہنی نشوونما بھی بہت ضروری ہے۔ ذہن کی کشادگی اور مثبت رویے بچوں کی زندگی کے لئے کامیابی کی ضمانت ہوسکتے ہیں۔ دین کی تعلیمات کے ساتھ اخلاقیات و اقدار سے روشناسی انھیں بہتر مقام دلا سکتی ہے۔ ان کے منفی رویوں کی بچپن سے حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ اسی طرح زبان کی نشوونما بھی ذہنی نشوونما کی طرح اہم پہلو ہے۔ بچپن میں جیسی گفتگو اور آداب بچوں کو سکھائے جائیں گے وہ تمام عمر اسی روش پرچلتے ہیں۔ بچوں کی زبان کی اصلاح کے لئے ان کے سامنے شائستہ اور اچھی گفتگو کی جائے ، اچھے الفاظ منتخب کئے جائیں ۔ بچہ کا ماحول صاف ستھرا، پاکیزہ اور اچھا ہو۔
مشقت کا عادی بنانا :
بچوں کو محنت ومشقت کا عادی بنایا جائے۔ ان کے اذہان میں یہ بات راسخ کرائی جائے کہ حرکت میں برکت ہے۔ مسلسل حرکت ہی کانام زندگی ہے۔ اگر آپ بچوں کو محنت ومشقت کا عادی بنائیں گے تو وہ سخت جان ،حوصلہ مند بنیں گے اور ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔آج کل بچے بہت زیادہ سہل پسند ،آرام طلب ہوچکے ہیں کہ اگر تھوڑا بھی پیدل چلنا پڑے تو فورا اپنے والدین سے کہتے ہیں اماں میری ٹانگوں میں درد ہے، ٹانگوں میں درد ہے میں چل نہیں سکتا۔اس درد کا علاج صرف اورصرف چلنے میں ہے۔ آرام سے یہ درد بڑھتا ہی جائے گااوران میں جرات و حوصلہ نہیں رہے گاکہ وہ مصائب وشدائد کا سامنا کریں اور ناانصافیوں سے بھری اس دنیا میں اپنا کوئی مقام پیدا کریں۔
کاہلی سے بچاؤ :
سستی ایک عالمگیر بیماری ہے۔سست بچوں کی اس خامی کو بچپن سے ہی بھانپ کر ان پر مختلف کاموں کی ذمہ داریاں عائد کریں اور انھیں ہر کام وقت مقررہ میں ختم کرنے کے لئے اہداف کا تعین کر کے سستی جیسی بیماری پرقابو پانے میں مدد کریں۔ اگر جوانی تک یہ ساتھ چلی تو ساری زندگی کےلئےبڑا مئلہ بن جائے گی۔
ورزش کی اہمیت:
ورزش بھی صحت کے لئے ضروری ہے۔ بامقصد اوربامعنی ورزش کی کوشش کی جائے کہ جسم کے تمام عضلات کی ورزش ہواس سے بچوں میں کےذہن بھی زیادہ چوکس ہو جاتے ہیں اور اس طرح جو کام وہ کئی گھنٹے لگا کر کرتے رہے ہیں اب جلدی کر لیں گے اور تھکاوٹ بھی محسوس نہیں کریں گے۔نماز کی عادت بھی بچوں کو توانا رکھتی ہے اور کام کے دوران انسانی دل و دماغ پر مثبت اثرات چھوڑتی ہے۔
حاضر دماغی:
تحصیل علم کے لئے یکسوئی اورتوجہ کی بہت اہمیت ہے۔ یعنی ذہن کا اپنے گردو پیش سے باخبر ہونا اور اسی مقام پر حاضر ہوناضروری ہے۔ اس لئے بچوں کے ساتھ مختلف معلومات کا کہانیوں کی صورت میں تبادلہ خیال کرتے رہیں۔ بچوں کو بچپن سے سماعت کی تربیت کی جائے۔
مطالعہ کی رغبت:
بچوں میں مطالعہ کی رغبت پیدا کی جائے۔ مطالعہ سے علمی ترقی ہوتی ہے پھر اس کی مدد سے انسان کامیابیوں اور کامرانیوں کے زینے چڑھتا رہتا ہے۔کتاب بہترین رفیق ہے اور اس سے حاصل کردہ شے علم انسان کو سرشاررکھتا ہے۔
آزادی اظہار:
بچے والدین سے آزادانہ تبادلہ خیال کرسکیں۔ بالخصوص اگروہ گھرسے باہر کی بات کریں تو انہیں نظرانداز نہ کریں ۔ توجہ سے ان کی سنیں ، اگر کوئی تنگ کررہا ہے تواسباب جاننے کی کوشش کریں کہیں ایسا نہ ہوکہ کوئی فرد حسد اور رقابت کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر منفی طورپر اثر اندز ہونے کی کوشش کرے، کوئی اسے بلیک میل کرکے اس کی شخصیت کو تباہ کردے اور بچہ کسی شخص کے خوف کی بناء پر کچھ ایساکام کرلے جس کی تلافی ناممکن ہو۔اس پر ڈر خوف نہ ہو کہ اگرمیں گھر میں ذکر کروں گا تو گھر والے سزادیں گے بلکہ وہ آزادی سے اپنے معاملات والدین کو بتاسکے۔
قوت برداشت:
برداشت ایک قوت ہے جس کے ہونے سے انسان دلوں کو فتح کرسکتا ہے، بچے اگر غصہ کریں یا ان میں برداشت کی کمی ہو تو ان کی تربیت پرخاص توجہ دیں اور گپ شپ کے دوران انھیں بتائیں کہ غصہ کرنا اچھی بات نہیں ہوتی اور اس سے متعلق انھیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنا ئیں جن میں غصہ کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے یعنی سبق آموز کہانیاں۔
عملی میدان کا انتخاب:
بچہ کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ والدین بچوں کی صلاحیتوں ، دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر ان کے لئے تعلیم و تعلم کا انتظام کیا جانا چاہئے۔ بچوں کی خواہش، دلچسپی اور انفرادی اختلافات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر عملی میدان کا انتخاب کیا جائے گا بچہ اس میں شوق، جذبے، لگن اور محنت سے کامیابی حاصل کرے گا۔