پرویز اشرفی
’’بچّو! کیا آپ کہانی سنو گے۔‘‘
تمام بچّوں نے خوشی سے کہا، ’’ہاں.... ہاں... ہم لوگ سنیں گے۔‘‘ دادو نے پوچھا ’’کیسی کہانی سننا پسند کریں گے؟ تاریخی یا تفریحی....؟‘‘ ابھی بچّے کچھ فیصلہ کرتے کہ اتنے میں اقصیٰ رانی بھاگتی ہوئی آئی اور دادو کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیار سے بولی ’’دادو! آپ مجھے تاریخی کہانی سنائیں۔ دادی اور پاپا کہتے ہیں کہ آپ کو تاریخی کہانیاں بہت یاد ہیں اس سے ہم بچّوں کی معلومات میں اضافہ بھی ہوگا اور تاریخی شخصیات کے متعلق معلومات بھی ملے گی۔‘‘
بڑے کمرے میں بیٹھے سب ہی بچّوں حبیبہ، ثقلین، قوسین، سدرہ،رافع اور امین نے ایک ساتھ شور مچایا ’’ہاں، ہاں. دادو،نہیں نانا، میرے دادو ہیں.. تو میرے نانا ہیں‘‘ بچّوں کی ٹولیاں آپس میں لڑنے لگیں۔ اتنے میں دادو نے دخل دیا ’’بچّو! مَیں دونوں کا ہوں ثقلین، حبیبہ، قوسین، رافع اور امن کا ’’نانا‘‘ ہوں اور اقصیٰ، سدرہ اور فواد کا ’’دادو‘‘ ہوں۔ تم لڑو نہیں، لو مَیں تمہیں آج بہت اچھی کہانی سناتا ہوں، سنو۔
آج سے کوئی چار سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ ناشتہ پانی سے فارغ ہو کر لوگ اپنے کام میں مصروف تھے۔ شہر آگرہ میں بادشاہ کے محل کے قریب ایک غریب خاتون گود میں بچہ لے کر سڑک پر جھاڑو لگارہی تھی۔ اسی سڑک کے کنارے ایک نوجوان پُراسرار طور پر چکر لگا رہا تھا۔ دراصل وہ اُس وقت کے بادشاہ کو گھات لگا کر قتل کرنا چاہ رہا تھا۔
’’دادو! بھلا وہ بادشاہ کو کیوں مارنا چاہتا تھا....؟‘‘ سدرہ نے ٹوکا۔ ’’بات یہ تھی کہ بادشاہ کے ساتھ جنگ میں اس کا باپ مارا گیا تھا اور اس کی ریاست پر بھی بادشاہ نے قبضہ کر لیا تھا، سمجھی تم۔‘‘ دادو نے سمجھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر کیا ہوا.... نانا! بتایئے نا....‘‘ ’’یہ سدرہ بیچ میں دخل دے کر مزہ خراب کر رہی ہے۔‘‘ر امن نے چڑتے ہوئے کہا۔
’’بتاتا ہوں ، مگر شرط ہے کہ تم لوگ آپس میں لڑو گے نہیں۔‘‘ ’’ہم نہیں لڑیں گے۔‘‘ سب نے حامی بھر لی۔ دادو نے پھر کہنا شروع کیا۔ ’’اتفاق سے ایک مست ہاتھی، ہاتھی خانے سے چھوٹ گیا۔ ہاتھی کے خوف سے آنے جانے والے لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں ہاتھی جھاڑو لگانے والی خاتون کی طرف لپکا۔ مامتا کی ماری خاتون بیچاری پریشان و خوف زدہ ہوگئی، اسے اپنے سے زیادہ بچّے کی فکر تھی اس کے منہ سے درد بھری چیخ نکل گئی ’’ہائے.... میرے بچّے کو بچاؤ!‘‘ ’’تو کیا بچہ مر گیا نانا....؟‘‘ اس بار حبیبہ نے افسوس و مایوسی سے پوچھا۔ ’’نہیں....! مگر پھر تم نے وعدہ توڑا....‘‘ دادو مصنوعی ناراضگی جتاتے ہوئے بولے ’’آگے سنو! اس خوفزدہ خاتون کی چیخ پکار نے نوجوان کو متاثر تو کیا مگر چھوت چھات کے جھوٹے فرق و امتیاز نے اس کے ضمیر کو مردہ کر دیا تھا۔
چنانچہ اس نے سوچا کہ ’’مَیں اعلیٰ ذات کا راجپوت ہو کر ایک صفائی کرنے والی خاتون کے بچّے کو کیوں چھوؤں!‘‘ وہ نوجوان اسے بچانے کے بجائے کھڑا تماشہ دیکھتا رہا۔ خدا کر کرنا ایسا ہوا کہ اس خاتون کی آواز بادشاہ کے کان میں پڑی۔ فوراً گُرز (ایک قسم کا ہتھیار) لے کر محل سےنکلاور ہاتھی کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھِر گیا۔ ہاتھی وہاں سے بھاگ گیا اور بادشاہ بچّے کو گود میں اٹھا کر محل کے اندر چلا گیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا دادو!‘‘ اقصیٰ نے خاموشی توڑی۔ ’’پھر یہ ہوا کہ اس راجپوت نوجوان نے بادشاہ کی بہادری اور رعایا پروری دیکھی تو بادشاہ کو قتل کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو کر اپنا منصوبہ ظاہر کر دیا۔‘‘
’’پھر تو بادشاہ نے اسے قید کر دیا ہوگا؟‘‘ ثقلین نے سوالیہ نظروں سے نانا کو دیکھا۔
’’نہیں! عظیم لوگوں کی سوچ بھی عظیم ہوتی ہے۔ بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور اس کے باپ کی ریاست بھی اسے واپس کر دی۔‘‘
’’مگر نانا.... وہ رحم دل بادشاہ آخر کون تھا جو بہادر بھی تھا ہمدرد بھی تھا۔ رعایا کو مانتا بھی تھا اور اپنے دشمنوں کو معاف بھی کر دیتا تھا، یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں؟‘‘ ’’یہ تم نے اچھا سوال کیا۔ تو سنو! اُس بادشاہ کا نام تھا ظہیر الدین محمد بابر ابن عمر شیخ مرزا۔ یہ پہلا مغل بادشاہ تھا جس نے ہندوستان میں مغل خاندان کی بنیاد ڈالی۔ اچھا اب رات زیادہ ہو رہی ہے، تم سب سو جاؤ! اگلی بار پھر تمہیں ایسی ہی کہانی سناؤں گا۔