• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کشمیری خواتین کو عصمت دری اور قتل جیسے جرائم کا نشانہ بنا رہا ہے، لارڈ قربان حسین

لندن / لوٹن (شہزاد علی) لبرل ڈیموکریٹس کے لارڈ قربان حسین نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہاؤس آف لارڈز میں خطاب کرتے ہوئےکشمیری خواتین کی حالت زار کو اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جب ہم برطانیہ اور دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کیلئے اٹھائے گئے اقدامات جیسے اہم مسائل پر بات کر رہے ہیں، ہمیں ان خواتین کو نہیں بھولنا چاہیے جو تنازعات کے علاقوں میں ہیں۔ جنہیں جسمانی اذیتوں، زبانی بدسلوکی، ہراساں کرنے، عصمت دری اور قتل کیے جانے کا سامنا ہے۔ ان علاقوں میں سے ایک کشمیر ہے، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے ، لارڈ قربان حسین نے ہائوس کو 14ستمبر 2020 کے لندنا سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کے مضمون کا حوالہ دیا جس کے مطابق ’’کشمیر میں خواتین کے خلاف بھارتی بے حسی اور تشدد،بھارتی جمہوریت کی حقیقت، کشمیر میں سب سے زیادہ واضح طور پر سامنے آئی ہے’’، ایک ایسی سچائی جسے کوئی بھی قوم پرست ہندوستانی سننا نہیں چاہتا۔ 5اگست 2019کو، بھارتی ریاست نے کشمیر سے آرٹیکل 370کو ختم کر دیا جس کے بعد انٹرنیٹ پر باقاعدہ کریک ڈاؤن کے ذریعے انتہائی ضروری حقوق سے انکار کر دیا گیا اور فون سروسز، نقل و حرکت پر پابندی، طویل لاک ڈاؤن، نافذ کر دیا جو تھکا دینے والے اقدامات ہیں اس کے علاوہ، معمول کی تذلیل ، فوج اور پولیس چوکیوں، نگرانی، ہراساں کرنا، ناکہ بندی، غیر قانونی نظربندیاں، پروفائلنگ، جس کا مقبوضہ کشمیر کے عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ان کے روزمرہ کے وجود کی ایک بھیانک لیکن مضحکہ خیز حقیقت بن چکی ہے، کشمیر ی خواتین کے شوہر غائب کیے گئے، سیکورٹی فورسز یا عسکریت پسندوں سے دور باوقار زندگی گزارنا ایک حقیقی چیلنج بن سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عام کشمیری معاشرے میں عورت کی شناخت ان کے شوہر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جب عورت کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ مرد کی ذمہ داری بن جاتی ہے، اس طرح، ان میں سے بہت سی خواتین اور ان کے بچے آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے باعث بقا کے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نائلہ علی خان ایک ماہر تعلیم لکھتی ہیں کہ ’’ان کی زندگیوں میں بندش کی کمی ان کے وجود کو ناقابل برداشت بناتی ہے‘‘،کشمیری عورتوں اور مردوں کے تئیں ہندوستان کا گہرا تعصب بھی کشمیریوں کے چنیدہ جرائم میں واضح ہوتا ہے۔ علی محمد بھٹ، لطیف احمد وازہ، مرزا ناصر حسین کو غلط طریقے سے 23 سال تک قید کیا گیا اور حال ہی میں دہلی میں ایک کشمیری جوڑے جہانزیب سمیع اور حنا بشیر کو آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا انہوں نے کہا کہ یہ بہت آسان ہے کہ کشمیری مردوں کو داڑھی رکھنے اور خواتین کو برقع اوڑھنے کی وجہ سے دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا جائے، انہوں نے ہاؤس آف لارڈز کو بتایا کہ یہ اصل صورتحال کی صرف ہلکی سی جھلک ہے ورنہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے خلاف بھارتی افواج کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے ۔ ہندوستانی جیلوں کے مختلف حصوں میں ہزاروں مرد اور خواتین قید ہیں، جن پر اکثر بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ یا بغاوت، اشتعال انگیزی اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے قوانین کے تحت الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر سے دور جیل میں قید خواتین کی تین مثالیں شیئر کریں گے:پہلی 58 سالہ آسیہ اندرابی ہیں جو جنوبی ایشیا کی خواتین کی سب سے بڑی تنظیم دختران ملت کی بانی اور چیئرمین ہیں،وہ کشمیر کی سب سے ممتاز خاتون آزادی پسند رہنما اور بائیو کیمسٹری، بائیو تھراپی اور بیکٹیریا میں سائنس گریجویٹ ہیں۔ اندرابی کشمیر کی پہلی خاتون مزاحمتی رہنما ہیں جن پر 1993 کے بعد سے 20بار پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ 1998میں انہیں بھارتی ریاست کے ہاتھوں مارے گئے باغیوں اور سیاسی مخالفین کی بیواؤں اور یتیموں کے لیے بحالی کے مراکز کھولنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اندرابی کے خلاف الزام سادہ ہے، وہ کشمیر کی بھارتی حکمرانی سے آزادی کی بھرپور وکالت کرتی ہے۔ اکتوبر 1990میں اندرابی نے ایک مزاحمتی نظریاتی عاشق حسین سے شادی کی، یہ کشمیر کا طویل ترین سیاسی قیدی ہے، جوڑے نے اپنی 28سالہ ازدواجی زندگی میں صرف چار سال ایک ساتھ گزارے ہیں۔ 58سالہ اندرابی زندگی کے مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ خطرناک بیماریوں اور طبی امداد سے انکار کیا جاتا ہے. دوسری صوفی فہمیدہ ہیں، جنہیں 20 اپریل 2018 کو بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے گرفتار کیا اور ان پر بغاوت کا الزام لگایا۔ تب سے وہ تہاڑ میں قید ہے، اور اس کی ماں ابھی تک اس کی رہائی کی منتظر ہے۔ تیسری ناہیدہ نسرین ہیں، جنہوں نے دو سال جیل میں گزارے، وہ بھی نئی دہلی میں، جو کشمیر سے بہت دور ہے۔ وہ تھیالوجی اور اسلامک اسٹڈیز میں گریجویٹ ہیں۔ ہندوستانی جیلوں میں مرد اور خواتین کے ایسے ہی ہزاروں کیسز ہیں۔ ان کا اصل جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے حق خود ارادیت کی مہم میں حصہ لیا جس کا وعدہ ہندوستان نے 1948اور 1949میں اقوام متحدہ میں کیا تھا۔ لارڈ قربان حسین نے وزیر سے کہا کہ وہ بتائیں کہ برطانوی حکومت ہندوستانی جیلوں سے ان تین خواتین جیسے قیدیوں کی رہائی کے لیے کیا مدد کر سکتی ہے۔ مزید برآں، کیا برطانوی حکومت انسانی حقوق کو ہندوستان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے سے منسلک کرنے کے لیے تیار ہے۔

یورپ سے سے مزید