• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں لوگ تعلقات کے فروغ اور گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے کیلئے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں، تاہم عالمی تعلقات کے پس منظر میں ریاستوں کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ ایک ریاست کا سربراہ دوسری ریاست کے سربراہ کو ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ سفارتی سطح پرتحائف پیش کرتا ہے، تو شہ خانہ 'برصغیرمیں مغل دور ِ اقتدار میں متعارف ہوا جب سلطنتِ مغلیہ کے بادشاہوں ، شہزادوں اور شاہی خاندان کو ملنے والے تحائف کو محفوظ رکھنے کیلئے شاہی محل میں توشہ خانہ کا قیام عمل میں لایا گیا، برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے والے تینوں ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں توشہ خانہ کا باقاعدہ محکمہ قائم ہے جبکہ قیمتی تحائف سنبھالنے کیلئے ہر ملک نے اپنا نظام اور طریق کار وضع کیا ہے، مشرقی حصے کے جدا ہونے کے بعد 1974 میں پاکستانی سربراہان کو عالمی ممالک کی جانب سے ملنے والے تحائف کا حساب کتاب رکھنے کی ذمہ داری کابینہ ڈویژن کو سونپی گئی ،ملکی قوانین کے تحت اگر کوئی تحفہ تیس ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والے فرد کو اجازت ہے کہ وہ اسے مفت اپنے پاس رکھ لے،تاہم تیس ہزار سے زائد مالیت کا تحفہ قیمت کی پچاس فیصدی ادائیگی کے بعد حاصل کیا جاسکتا ہے، توشہ خانہ مینجمنٹ ایکٹ 2020ء سے قبل یہ قیمت صرف بیس فیصد تھی،پاکستان میں غیرملکی تحائف پر پہلا حق اس کاسمجھا جاتا ہے جس کو یہ تحفہ دیا گیا ہو، اگر وہ اسے لینے سے معذرت کرلے تو پھر سرکاری افسران کو نیلامی کیلئے پیش کیا جاتا ہے، نیلامی سے بچی کھچی اشیا کو پھر عام عوام کے سامنے نیلامی میں پیش کیا جاتا ہے،تمام خرید کنندہ کو اپنی ذرائع آمدنی ظاہر کرنے کے ساتھ ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی 1974سے کابینہ ڈویژن کے تحت صدارتی محل بانگہ بھبن میں توشہ خانہ قائم ہے جہاں صدر، وزیراعظم سمیت تمام وزرا اور سرکاری حکام کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، پانچ سال قبل بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ نے توشہ خانہ میوزیم کا افتتاح کرتے ہوئے غیرملکی تحائف کو عوام کیلئے نمائش کیلئے پیش کردیا تھا، اس موقع پر بنگلہ دیشی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عالمی ممالک سے حاصل کردہ تمام تحائف ریاستی اثاثہ ہیں جنکی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت ضروری ہے، بنگلہ دیش کے توشہ خانہ مینٹینس اینڈ ایڈمنسٹریشن رولز 1974کے تحت ایسے تمام تحفے جو تاریخی اہمیت یا منفرد نوعیت کے ہوں، ہر حال میں سرکاری توشہ خانہ میں جمع ہونے چاہئے، بنگلہ دیشی قوانین کے تحت صدر اور وزیراعظم پچاس ہزار ٹکہ تک کے تحائف بغیرادائیگی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ۔ بھارت میں وزارتِ خارجہ کے تحت توشہ خانہ قائم ہے جس میں وزیراعظم سمیت تمام سرکاری حکام کو غیرملکی تحفے تیس دن کے اندر جمع کرانا لازم ہے، بھارتی قوانین کے تحت پانچ ہزار روپے تک مالیت کا تحفہ بغیرادائیگی رکھا جاسکتا ہے، چند سال قبل پاکستان میں جب توشہ خانہ ایشو منظرعام پر آیا تھا تو بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ گجرات انہوں نے ایک تحفہ بھی اپنی ذات کیلئے حاصل نہیں کیا بلکہ تمام تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کراکر نیلامی کیلئے پیش کردیا تھا،بھارت کی تاریخ میں سب سے زیادہ تحفے وصول کرکے توشہ خانہ میں جمع کرانے والے مودی کے بقول نیلامی سے حاصل کردہ ایک سو کروڑ روپے کی آمدنی لڑکیوں کے تعلیمی منصوبوں میں خرچ کی گئی، بھارتی وزارت خارجہ ہر تین ماہ بعد توشہ خانہ میں جمع کردہ تحائف کی فہرست عام نیلامی کیلئے پیش کرتی ہے۔اسی طرح امریکہ کا آئین حکومت کے ہر فرد کو پابندکرتاہے کہ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیرکسی غیرملکی سربراہ مملکت سے ذاتی تحفہ وصول نہیں کرسکتے، تاہم فارن گفٹس اینڈڈیکوریشن ایکٹ 1966کے مطابق فیڈرل ملازمین ایک مخصوص حد تک تحائف اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، وائٹ ہاؤس گفٹ یونٹ امریکی صدر اور خاتون اول کو ملنے والے تحائف کی نگرانی کرتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ توشہ خانہ کیس کے حوالے سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دوست ملک سے حاصل کردہ تحفے کو فروخت کرنا سفارتی آداب کی توہین ہے جبکہ کچھ کا موقف ہے کہ بھارت سمیت دیگر ممالک میں بھی سفارتی تحائف کو فروخت کیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جب ایک ریاست کا سربراہ پاکستان کے حکام کو کوئی تحفہ دیتا ہے تو اس پر پہلا حق ریاست کا ہے ، یہ سفارتی تحفے کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ درحقیقت ریاست کو دیے جاتے ہیں،تاہم تحفوں کی بڑی تعداد کو لامحدود مدت کیلئے توشہ خانہ /میوزیم میں رکھنا ممکن نہیں، غیرملکی تحائف کا بہترین مصرف ریاست میں بسنے والے پسماندہ طبقوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہئے، اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ توشہ خانہ قوانین میں ترامیم کرکے تمام قیمتی تحائف باقاعدگی سے عام نیلامی کیلئے پیش کئے جائیں اور حاصل کردہ آمدنی بیت المال میں جمع کرائی جائے جو ملک بھر کے غریب اور مستحق افراد کی فلاح وبہبود کیلئے بہترین انداز میں کوشاں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین