• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
پاکستان میں سفید پوش اعتبار سےگیایہ سچ ہے کہ غریب اور غربت کی آبیاری کرنے والوں نےہمارے حالات کو ایسا سینچا ہے کہ غریب ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ہر اعتبار سے بھی گئے۔ ہم بے لباس ہوئے، ہم بھوک رکھتے رہتے ہیں، ہم کھانوں کی خوشبو سے بھی گئے، بھوک سے دوستی ہم نے کر رکھی ہے، ہم پر امراء کی عظیم الشان عمارتوں میں جھانکنے کی پابندی ہے کہ ہم شاید دیمک زدہ بستیوں کے رہنے والے ہیں اور اعلیٰ شان عمارتوں کو زنگ آلود اور دیمک سے بھر دیں گے تبھی مضبوط دیواروں کے آر پار جانا تو دور کی بات جھانک بھی نہیں سکتے۔ جی ہاں اس سے کہیں زیادہ بری حالت ہے پاکستان کے غریب کی۔۔۔ تصور کیجئے کہ دسترخوانوں اور لنگر خانوں کے کھانے تو نہایت نچلی سطح کے لوگ کھا لیتے ہیں کہ ان کی حالت دیکھنے والا یا ان کی عزت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اصل مسئلہ تو ان غرباء کا ہے جنہیں کھانے کے ساتھ ساتھ اصل مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے جنہیں ہم سفید پوش کہتے ہیں، جن کے اپنے کوئی موسم نہیں ہوتے جو غیرت رکھتے ہیں، جو بحالت مجبوری دوسروں کو نہایت عزت دار سفید پوش بن کر خود کو ظاہر کراتے ہیں، جن کے گھر میں دعائیں ہوتی رہتی ہیں کہ بھوک سے ہم بے شک بلبلاتے رہیں مگر کاش کوئی یہاں بیمار نہ ہو اور بیمار ہو کر کوئی موت کے منہ میں نہ جائے کہ ہم اس مٹی سے صرف ہمکلام ہوسکتے ہیں، اسے چھو سکتے ہیں، ہمکلام ہو کر شکوہ کرسکتے ہیں مگر ڈھائی گز زمین کو بھی اپنے مردے کیلئے خرید کر دفن نہیں کرسکتے تو کیا ہمارا کفن، تو کیا ہماری قبر اور کیا ہماری مٹی، کیا ہماری خوشبو اور کیا ہمارے مزاج! ہم جو غربت کی نچلی سطح سے ذرا اوپر کے سفید پوش غریب ہیں۔ ہم تو ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے کہ کسی سے مجبوری کی کیفیت میں کچھ مانگ ہی لیں۔ بس ہم صرف اپنے ہاتھ دعاؤں کیلئے اللہ کے آگے پھیلا سکتے ہیں کہیں اور نہیں! ہماری آبیاری یعنی سفید پوش لوگوں کی آبیاری ایسی ہوئی کہ ہمیں معاشرے کا سب سے بے چارہ بھی سمجھا جاتا ہے، لوگ اس طبقے کی بے چارگی دیکھ کر اس کی خفیہ مدد بھی کرتے ہیں مگر یہ طبقہ بے چارہ ہونے کے باوجود خود کو انا کے خول میں لپیٹے رکھتا ہے۔ ان میں خود اعتمادی کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ انا پرستی کسی بھی انسان کو سوٹ نہیں کرتی وہی بات کہ جس نے کی شرم، اس کے پھوٹے کرم۔ اب یہ لوگ بے چارگی میں زندگی ضرور گزارتے ہیں مگر اپنی مالی پریشانیاں کسی کو بتانے سے قاصر رہیں تو کون ان کے مسائل سمجھے گا؟ اگر یہ بے عزتی یا یا کسی بھی قسم کی انا پرستی کا مزاج برقرار رکھیں تو لوگ بھی گریزاں رہیں گے۔ انہیں یا ان کے مسائل کو سمجھنے سے، کیونکہ یہ خول میں بند ہیں تو آج کل برق رفتار دور کسی کیلئے رکتا نہیں اور جہاں ہر انسان کے اپنے اپنے مسائل اور ترجیحات ہوں تو وہاں کسی کے بھی مسائل کو بیٹھ کر غور سے سلجھانے کا وقت گیا۔ اب تو اپنے آپ کو اور اپنے مسائل کو، مجبوریوں کو دوسروں کے سامنے لانا پڑتا ہے انہیں اجاگر کرنا پڑتا ہے ورنہ اندھیرے پردوں میں ہی رہئے سفید پوش لوگو! قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ جہاں بہت سے معاملات زندگی کے پہلوؤں پر روشنی اور اس کے حل پر تفسیر بیان کرتی ہے وہیں پر ایسے سفید پویش لوگوں کے بارے میں صدقہ و زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ ’’جو ضرورت مند ہوں لیکن اپنی غربت کی وجہ سے لوگوں سے الگ لپٹ کر سوال نہ کرتے ہوں۔ ایسے لوگوں کو عرف عام میں سفید پوش کہا جاتا ہے‘‘۔ دین کی رو سے سفید پوش کی چار صفات بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فقراء یعنی ضرورت مند ہوں۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو کسی دینی خدمت خلق وغیرہ کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ اس دینی مصروفیات کی وجہ سے ملازمت یا کوئی کاروبار کرنے سے قاصر ہیں۔ چوتھا یہ کہ وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ یعنی یہ نہیں کہتے کہ ہم نے چونکہ اپنے آپکو دین کی فلاں خدمت کیلئے وقف کر رکھا ہے تو آپ لوگ ہماری ضروریات پوری کرو۔ اب تو خیر سفید پوش لوگوں کی کئی اقسام وجود پا چکی ہیں۔ سورۃ البقرۃ میں موجود چار صفات سے بہت مختلف۔ کچھ سفید پوش واقعی دین کی خدمت کے پیش نظر مختلف مطمع نظر رکھتے ہیں مگر اب حالیہ سفید پویش میں بحالت مجبوری تبدیلی آگئی ہے۔ اب یہ خاموش رہتے بھی ہیں اور نہیںبھی رہتے، اب یہ مجبوری دکھاتے بھی ہیں اور نہیں بھی دکھاتے، اب یہ غیرت کے پردے میں رہتے بھی ہیں اور نہیں بھی رہتے۔ انا اور اعتماد میں رہتے بھی ہیں اور نہیں بھی ! اب سفید پوش لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم کسی سے ادھار پیسے لیں تو مل تو جاتے ہیں مگر ہمیں غریب و رمجبور سمجھ کر واپسی کا مطالبہ جلد شروع کردیتے ہیں کہ جیسے ہم دیئے بغیر نہ مر جائیں۔ یہ ہی قرض اگر کسی امیر مجبور کو دیا جائے تو اسے دیکھ کر بھول جاتے ہیں، اس سے جلد واپسی کا مطالبہ نہیں کرتے اس پر اعتبار کرتے ہیں کہ یہ کہاں جائے گا دے ہی دیتے ہیں اگر وہ مجبور امیر مر بھی جائے تو اسے قرض معاف بھی کر دیں گے مگر سفید پوش کو دیا قرض معاف نہیں کرتے اگرچہ وہ لوٹانے کی فکر رکھتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے مجھے کسی سے لیا قرض لوٹانا ہی ہے۔ تو جیسے جیسے قسم کے مجبور لوگ ویسے ویسے یقین و اعتماد کی کمی ! یعنی پاکستان میں سفید پوش اعتبار سے بھی گیا بے چارہ۔
یورپ سے سے مزید