• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح ۔۔۔۔۔ لیڈز
کثیر لسانی اور کثیر الثقافتی معاشرے اپنی زبانوں کے ذریعے وجود میں آتے ہیں، جو روایتی علم اور ثقافتوں کو پائیدار طریقے سے منتقل اور محفوظ کرتے ہیں، مجموعی طور پر دنیا میں مقامی زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں کی مادری زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اِس لیے مادری زبان، یا ماں بولی، جِسے انگریزی میں مدر لینگوج کہتے ہیں، وہ زبان ہوتی ہے جو بچے کو پیدائش کے بعد سننے کو ملتی ہے، اور ہمارے احساسات اور خیالات کو ایک خاص شکل دینے میں مدد دیتی ہے۔ یہ کسی بھی انسان کے آباؤ اجداد اور اُس کی دھرتی کی زبان ہوتی ہے۔ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا اِس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تنقیدی سوچ میں مہارت حاصل کرنے، دیگر زبانوں کو سیکھنے، شرح خواندگی کو بڑھانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دُنیا بھر کے تعلیمی ماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم اُن کی مادری زبان میں دی جائے تو بہترین نتائج نکلتے ہیں۔ اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر پاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی 40فیصد آبادی کو اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں تقریباً 7000زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن لسانی تنوع کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ زبانیں خطرناک حد تک ختم ہو رہی ہیں۔ جب کوئی زبان معدوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک مکمل ثقافتی اور فکری ورثہ لے جاتی ہے، مقامی زبانیں کسی بھی معاشرے میں شناخت، مواصلات، سماجی انضمام، تعلیم اور ترقی کیلئے اپنے پیچیدہ مضمرات کے ساتھ وہاں کے لوگوں اور معاشروں کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اِس کے باوجود عالمگیریت کے عمل کی وجہ سے وہ تیزی سے خطرے میں ہیں، یا مکمل طور پر غائب ہو رہی ہیں، جب زبانیں ختم ہو جاتی ہیں تو دنیا کی ثقافتی تنوع کی بھرپور افزائش بھی ختم ہو جاتی ہے، مواقع، روایات، یادداشت، سوچ اور اظہار کے انوکھے طریقے اور بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قیمتی وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں، دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دینا ہی تعلیمی عمل میں سب سے زیادہ شمولیت اور سیکھنے کا بہترین معیار سمجھی جاتی ہے، اور مادری زبان بچوں میں سیکھنے کے معیار اور اُن کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے، ایسا کرنا بالخصوص پرائمری اسکولوں میں علم کے خلاء سے بچنے اور سیکھنے سمجھنے کی رفتار کو بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔ مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنانے سے بچے بہتر انداز میں اور تیزی سے سیکھتے ہیں، اور بہتر انداز میں سمجھ پاتے ہیں۔ وہ سکول سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اپنے سکول کو گھر کی طرح ہی محصوص کرتے ہیں اور اُن کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم جب آگے بڑھ کر قومی اور عالمی زبانوں سے ملاپ کرتی ہے تو اِس سے علمی اور فکری ترقی میں مدد ملتی ہے۔ یہ دوسری زبانیں سیکھنے میں مدد کرتی ہے، آپ کو اپنی ثقافت اور لوگوں سے جڑنے میں مدد دیتی ہے اور پیشہ وارانہ مہارت اور تجارتی لحاظ سے بھی فاعدہ مند ہے۔ اس بات کا خدشہ بڑی شدت سے موجود ہے کہ آج کی کم از کم 50 فیصد بولی جانے والی زبانیں 2100ء تک معدوم ہو جائیں گی یا پھر سنگین خطرے میں پڑ جائیں گی، زیادہ مایوس کن لیکن حقیقت پسندانہ اندازوں کا دعویٰ ہے کہ اِس صد کے آخر تک 90-95 فیصد زبانیں معدوم ہو جائیں گی، اُن میں سے زیادہ تر زبانیں دیسی، یا مقامی زبانیں ہے، اِس طرح انسانیت کے پاس صرف 600-300 زبانیں باقی رہ پائیں گی جو اِس صدی کے آخر تک خطرے سے پاک ہیں، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء اور 2032ء کے درمیانی عرصے کو مقامی زبانوں کی بین الاقوامی دہائی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے تا کہ بہت سی مقامی زبانوں کی نازک صورتِ حال پر عوامی شعور اجاگر کیا جا سکے، عالمی توجہ مبذول کروائی جا سکے اور اُن کے تحفظ، احیاء اور فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور وسائل کو متحرک کیا جا سکے۔ اِس سال کے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کا تھیم، کثیر لسانی تعلیم ، تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا، مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دُنیا بھر کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور اُن کی شمولیت کیلئے سہولت فرہم کرنا ہے جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں، اس لیے دُنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جان بوجھ کر پنجابی بولنے والوں میں احساسِ محرومی پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں، یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی بھی یہ رائے بن چکی ہے کہ پنجابی بولنا جاہل ہونے کے مترادف ہے جِس کی وجہ سے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ شخص بھی خود کو مہذب ظاہر کرنے کے لیے اُردو بولنے کی کوشش کرتا ہے، ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ پنجابی مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے منع کرتی ہیں اور پنجابی بولنے پر بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی گریز نہیں کرتیں، اپنی مادری زبان کی ترویج و ترقی اور اسے استعمال پر فخر کرنے کی بجائے ہم نے تو خود ہی پنجابی بولنے کو غیر مہذب زبان کا درجہ دے دیا ہے، اس سال کے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کا تھیم، " لسانی کثیر تعلیم ، تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت" ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دُنیا بھی کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور اُن کی شمولیت کے لیے سہولت فرہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اِس لیے دُنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔
یورپ سے سے مزید