• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیوریج ڈمپنگ ختم کرنے کے نتیجے میں پانی کے بلوں میں اضافہ ہوگا، ہاؤس آف لارڈز رپورٹ

لندن (پی اے) سیوریج ڈمپنگ کے خاتمے سے پانی کے بلوں میں اضافہ ہوگا- ہاؤس آف لارڈز کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، دریاؤں اور سمندر میں گندے پانی کو پھینکنے سے روکنے کے لیے بنیادی ڈھانچے پر بھاری اخراجات کی ضرورت ہوگی اور ممکنہ طور پر پانی کے بلوں میں اضافہ ہوگا، واضح رہے کہ طوفان کے بہاؤ کے ذریعے کچے سیوریج کا اخراج شدید بارش کے دوران ایک آخری ہنگامی حربہ ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا اکثر ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نظام آلودہ پانی کے اخراج پر انحصار کرتا ہےیہ یکے بعد دیگرے حکومتوں، ریگولیٹر آف واٹ اور واٹر کمپنیوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ برطانیہ کے سیوریج کے مسئلے کی بنیادی وجہ سےنہیں نمٹا جاتا۔ اس نظام کو وکٹورینز نے ڈیزائن اور بنایا تھا اور بڑھتی ہوئی آبادی اور زیادہ شدید طوفانوں سے نمٹنے کیلئے درکار نالوں اور ٹریٹمنٹ پلانٹس میں اتنی سرمایہ کاری نہیں کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ کچے سیوریج کو بارش کے پانی کے ساتھ ندیوں اور ساحلوں پر باقاعدگی سے خارج کیا جا رہا ہے۔کئی دہائیوں سے ہمیشہ آبادی کو سستے اچھے معیار کے پانی کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے رپورٹ شائع کرنے والی ہاؤس آف لارڈز انڈسٹری اینڈ ریگولیٹرز کمیٹی کے رکن لارڈ کروم ویل کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی مقاصد پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کو درست کرنا بہت مہنگا پڑے گا۔ زیادہ تر لوگ اس حل کو ویسٹ واٹر سسٹم کی تعمیر کے طور پر دیکھتے ہیں جو بارش کے پانی اور فضلے کے پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے الگ الگ انتظام کرتا ہے ۔ لیکن اس اپڈیٹ شدہ سیوریج نیٹ ورک کی لاگت کا تخمینہ وسیع پیمانے پر مختلف ہوتا ہے۔لارڈز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کئی دہائیوں کے دوران اربوں پونڈز تک کے تخمینے سنے تھے پچھلے سال حکومت نے اپنا طوفان کے اوور فلو ڈسچارج ریڈکشن پلان شائع کیا، جس کے مطابق وہ پانی کی کمپنیوں کو اگلے 25سالوں میں 56بلین پونڈز کی سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کرے گی۔یہ لاگت یقینی طور پر صارفین تک پہنچ جائے گی، لارڈز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ شرح ادا کرنے سے قاصر افراد کے لیے ایک سماجی ٹیرف کی ضرورت ہوگی۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ بلوں میں کتنا اضافہ متوقع ہے۔ رپورٹ کے جواب میں محکمہ ماحولیات ،خوراک اور دیہی امور (ڈی ای ایف آر اے ) نے 56بلین پونڈزکے منصوبے کو پانی کی کمپنیوں کی تاریخ کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر پروگرام قرار دیا۔ ڈیفرا کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم صارفین اور اپنے بہترماحول کی فراہمی میں کمپنیوں کو حساب دینے کیلئے مزید تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ لارڈز کی رپورٹ میں واٹر ریگولیٹر آف واٹ سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہواٹڑ کمپنیوں پر زیادہ شفافیتکے لئے زور دیں۔ بڑھتی ہوئی عوامی بیداری کے باوجود، کمپنیوں کو اب بھی جامع معلومات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کیا، کب اور کتنا سیوریج ریلیز کرتی ہیں۔ فی الحال وہ اعداد و شمار جاری کرتے ہیں کہ ہر سال کتنے گھنٹے ان کے طوفان کا بہاؤ کھلا رہتا ہے 2021میں یہ انگلینڈ میں 2.6ملین سے زیادہ گھنٹے تک پہنچ گیا۔ اخراج کے حجم، اس کے مواد یا برطانیہ کی بیشتر آبی گزرگاہوں کے معیار کی کوئی معمول کی نگرانی نہیں ہے ایک بیان میں آف واٹ نے لارڈز کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مفید اور مفصل قرار دیا۔ ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ وہ پانی کی کمپنیوں کو اصولی دائرہ میں رکھنے کیلئے مزید کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ وہ اس وقت چھ کمپنیوں کی تحقیقات کر رہی ہے اس ہفتے کے شروع میں آف واٹ نے کہا تھا کہ پانی کی کمپنیوں کو ڈیویڈنڈ ادا کرنے کا فیصلہ کرتے وقت ماحولیاتی کارکردگی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ لارڈز کہتے ہیں کہ واٹر کمپنی کے مالکان کو بڑے بونس نہیں ملنا چاہیے جب کہ ان کی کمپنیاں آلودگی پھیلاتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ انفرادی احتساب (پانی کی کمپنیوں میں) اور سنگین ماحولیاتی جرائم کیلئے پابندیوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔تبصرہ کیلئے بی بی سی کی درخواست کے جواب میں، تجارتی ادارے واٹر یو کے نے کہا کہ اس نے کمیٹی کی اس سفارش کا خیرمقدم کیا ہے کہ حکومت آف واٹ کو ماحولیات اور پانی کی حفاظت کو مزید بہتر بنانے کیلئے ضروری سرمایہ کاری کی بڑھتی ہوئی سطح پر رہنمائی فراہم کرے۔

یورپ سے سے مزید