خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کے زہر اہتمام دو روزہ ’’چوتھی ویمن کانفرنس ‘‘کا انعقاد 10 اور 11مارچ کو کیا گیا۔ تقریب کے آغاز سے قبل آڈیٹوریم کے باہر جشن کا سماں تھا، کانفرنس کی شروعات ڈرم سرکل کی پر فارمنس سے کی گئی،جس کوشرکاء نے بھر پور انجوائے کیا۔ بعدازاں مرو وخواتین کا ہجوم آڈیٹوریم کی جانب رواں دواں ہوا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے شرکاء کا جوش وجذبہ قابل دید تھا۔
خواتین کانفرنس میں مرد حضرات نے نہ صرف شرکت کی بلکہ مرد مقررین نے خواتین کے حق میں، ان کی خدمات، بہادری اور ہمت کو سراہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ امسال انڈسٹریل خواتین کو بھی مدعو کیا گیا ،جن کی بڑی تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی۔ دوسرے دن پہلے سے زیادہ تعداد میں خواتین موجود تھیں۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو آڈیٹوریم انڈسٹریل خواتین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔جن کو دیکھ کر خوشی بھی ہوئی کہ اب یہ خواتین بھی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا سیکھ رہی ہیں۔
ہمیں کانفرنس کی سب سےا چھی بات یہ لگی کہ مردوں کی تعداد بھی خواتین سے کم نہیں تھی۔ افتتاحی سیشن سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، صوبائی وزیر ترقی نسواں شہلا رضا ،نورالہدی شاہ ،ڈاکٹر جعفر احمد نے خطاب کیا۔ انیس ہارون ،قدسیہ اکبر ،فاطمہ حسن ،غازی صلاح الدین، سیکرٹری پروفیسر اعجاز فاروقی ،کشور زہرہ نے بھی شرکت کی ۔جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دئیے۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو احساس ہے کہ بھیک مانگنے سے کچھ نہیں ملے گا، اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی، فاطمہ جناح رول ماڈل تھیں، بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خواتین وزیراعظم تھیں ، محنت کش خواتین کی بہت بڑی جدوجہد ہے، پارلیمنٹ میں موجود خواتین کو دھمکیاں بھی ملتی رہیں، انہیں ہراس بھی کیاگیا، وہ سڑک پر پٹتی رہیں ، جیل بھی گئیں، مگر انہوں نے پاکستان کے آئین کے مطابق جائز اور برابری کے حقوق کے لیے ہمیشہ اپنی آواز بلند کی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین چاہے کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو بنیادی طور پر ان کو حقوق ملنے چاہئیں، جس میں روزگار ،تعلیم اور صحت کے مسائل شامل ہیں، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا، پاکستان میں عورت کو ووٹ کا حق پہلے ملا ، جب امریکا میں سیاہ فام عورتوں اور بچوں کو بسوں میں بیٹھنے نہیں دیتے تھے، تب پاکستان کی خواتین کو ووٹ تک کا حق حاصل تھا، اگر ہم عورتوں کے حقوق نہیں دلوا سکتے تو مہذب قوم کہلانے کے لائق ہی نہیں، آج بھی گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو معقول تنخواہ نہیں دی جاتی، مذہب کے نام پر بھی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، خواتین کی جدوجہد کوسلام پیش کرتا ہوں، مردوں کو خواتین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،جب ہی ہم خواتین کے مسائل کم کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر صوبائی وزیر ترقی نسواں شہلا رضانے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ،خواتین کو اپنے تحفظ کی جنگ خود لڑنا پڑے گی ، قانون وہ ہتھیار ہے جس کو آپ مصیبت کے وقت استعمال کرسکتے ہیں، خواتین کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اسے کب اور کیسے اس ہتھیار کو استعمال کرنا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کو پتا ہی نہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے قانون بھی ہے، بچہ ہو مرد ہو، عورت ہو، بوڑھا ہو یا جوان ہو۔ قانون سب کا تحفظ کرتا ہے۔ لیکن کچھ قوانین ایسے ہوتے ہیں جن سے براہ راست خواتین کو تحفظ پہنچتا ہے، یہ قوانین صرف سندھ میں نہیں بلکہ ہر صوبے میں مو جود ہیں۔
صوبائی سندھ میں خواتین پر تشدد کا مضبوط قانون موجود ہے ۔یہ غلط لوگ ہیں جو آپ کی بچیوں کو گھر سے نکلنے پر مجبور کررہے ہیں ، ان لوگوں سے نہ ڈریں، انہیں سامنے لائیں، عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا، جب تک خواتین اپنی آواز بلند نہیں کریں گی کچھ نہیں ہوسکتا، خواتین کو اس تشدد کو خود روکنا پڑے گا۔ تشدد کو گھر کا معاملہ نہ سمجھیں اور اس کو اپنا نصیب نہ بنائیں۔ کی نوٹ اسپیکر اور ادیبہ نورالہدی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہم اپنی عورت کو دنیا سے غافل رکھتے ہیں، باہر کی دنیا کیا ہے اسے پتا ہی نہیں، ہماری خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے مسائل ،دنیا کے مسائل سے مختلف ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔
خواتین یہ سوچ کر چھپ ہو جاتی ہیں کہ ہم سے پہلی کی خواتین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، لہٰذا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ چیز ہمیں مایوسی کی طر ف لے جاتی ہے اور جدوجہد سے دور کردیتی ہیں۔
یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ آج وومن کانفرنس میں محنت کش خواتین کی اکثر یت یہاں موجودہے، ہمارے معاشرے میں ’’عورت ‘‘ سنجیدہ موضوع کیوں نہیں ہے، کبھی اس بارے میں سوچاہی نہیں ،جب بلند آواز سے بات ہوتی ہے تو ہم آدھے خود اسی سسٹم کا حصہ ہو تے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ اس موضوع کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، جب کبھی مزاحمت کی تحریک لے کر آتے ہیں تو ہماری تعداد کم ہوتی ہے، جاگیر دار وہ نہیں، جس کے پاس بہت ساری زمین اور جائیداد ہے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے، جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ ہے،جس کے تحت ہم پروان چڑھتے ہیں۔
یہ بات کہنے میں کوئی آر نہیں ہے کہ ریاست جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ کو پہلے دن سے سپورٹ کررہی ہے، اس کا تحفظ کررہی ہے۔ عورت سماج کی جڑ ہے، ہماری عورت بے خبر ہے، وہ سامنے کا چہرہ دیکھ کر الفاظ سن کر سمجھتی ہے کہ میں اسی کے لیے ہوں، عورت جب دباؤ میں ہوگی تو دبی ہوئی نسلیں ہی اس ملک کو دے گی۔کی نوٹ اسپیکر ڈاکٹر جعفر احمد نے ”حقوق نسواں کی عالمی تحریک۔ ایک اجمالی جائزہ“ کے موضوع پر گفتگو کی۔
افتتاحی تقریب کے بعد چوتھی ویمن کانفرنس کے پہلے سیشن ”قدرتی آفات، آب و ہوا کی تبدیلیاں اور خواتین“ کے موضوع پر گفتگو کی گئی ،جس میں صبا ایدھی ،نورالہٰدی شاہ، شیریں مصٰطفی ،زوفین ابراہیم نے حصہ لیا ،جب کہ نظامت کے فرائض آفیہ سلام نے انجام دئیے۔ دوسرا سیشن ’’کوئی دیکھے تو چراغوں کا فروزاں ہونا ‘‘یوتھ پر کیا گیا، جس میں ان باصلاحیت خواتین نے حصہ لیا۔
جنہوں نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھائیں، اپنی کامیابیوں کے سفر کے بارے میں آگاہ کیا ،سیشن کی نظامت انشال جاوید نے کی۔ تیسرا سیشن ’’ہماری زندگیوں کا جشن منانا ‘‘ کے موضوع پر کیا گیا، جس میں غازی صلاح الدین نے عاصمہ جہانگیر کی بہادری پر سیر حاصل گفتگو کی، انیس ہارون نے روبینہ سیگل کے کامیابیوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔فیصل ایدھی نے اپنی والدہ بلقیس ایدھی کی زندگی کے بارے میں گفتگو کی۔نعیم مزرا نے نگار احمد اور شہلا ضیاءکی جدوجہد کے بارے میں بتایا۔
مشہود رضوی نے انیتہ غلام علی کی بہادری ،خدمات اور شاندار جدوجہد کے حوالے سے شرکا ء کو آگاہ ،جس کی نظامت انیس ہارون نے کی۔ چوتھا سیشن ’’تشدد اور ہمارا انصاف کا نظام ‘‘ پر منعقد کیا گیا ،جس میں شر کاء نے سیر حاصل گفتگو کی ،جس کی نظامت آفرین سحر نے کی ۔ ”سلطانہ صدیقی کے ساتھ بات چیت“ پر سیشن منعقد ہوا، پہلے روز کانفرنس کا اختتام خواتین کے مشاعرے پر ہوا ،جن میں ریحانہ روحی ،عطیہ داود، رخسانہ صبا ،ناصرہ زبیری، نزہت عباسی ،حمیرا راحت ،شائستہ مفتی ودیگر شعراء شامل تھیں۔ نظامت کے فرائض عنبرین حسیب عنبر نے انجام دئیے۔
چوتھی ویمن کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز پہلے سیشن ’’ محنت کش خوا تین ،جدوجہد اور کامیا بی ‘‘کے موضوع پر ہوا ،جس میں کرامت علی، فرحت پروین، بشریٰ آرائیں اور زہرہ اکبر خان نے موضوع سے متعلق گفتگو کی، جب کہ نظامت کے فرائض مہناز رحمن نے انجام دئیے۔
کرامت علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان محنت کش خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جنہوں نے مشکل حالات میں بھی کام کیا، پاکستان کی محنت کش خواتین پر فخر ہے، ان کا کام دیکھ کر میری ہمت بڑھ جاتی ہے، مجھے یقین ہے خواتین کی جدو جہد ضرور رنگ لائے گی اور ہم انسانی معاشرے بنانے میں کا میاب ہوں گے، ہر مذہب اور کلچر میں تمام انسان برابر ہیں لیکن انسانی زندگی، انسانی محنت ، مشقت اور پیداوار میں سب سے زیادہ حصہ خواتین کا ہے، ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ عورت ہے یا مرد بلکہ بطور انسان مسائل کاحل نکالنا ہوگا، تاکہ معاشرے میں تبدیلی آسکے۔
فرحت پروین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں اور مردوں کو برابر حقوق ملنے چاہئیں، کراچی میں آج بھی خواتین کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا، وہ اپنے نام پر کسی گھر کی مالک نہیں بن سکتیں، عورتوں کا مردوں سے کوئی جھگڑا نہیں، ہمیں مل کر مسائل کا سامنا کرنا ہوگا، محنت کش خواتین کو باہر کام کرنے کے بعد بھی گھر کے کام کرنے پڑتے ہیں، گھر سے باہر نکل کر کام کرنا عورت کی کامیابی نہیں، خواتین کو خود مختار ہونے کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔
بشری آرائیں نے گفتگو کا آغاز اس بات سے کیاکہ خواتین معاشرے کا پلر ہیں ، پاکستان کی عورت کسی سے کم نہیں ہے ، خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں اگر وہ چاہیں تو معاشرہ بدل سکتی ہیں، عورت صرف شادی اور بچے پیدا کرنے لیے نہیں بنی، شادی کے بعد جہیز کے تانے سننے پڑتے ہیں، مارپیٹ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عورت جب اپنی جائیداد کا حصہ مانگتی ہے تو اس سے رشتہ ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، اس معاشرے کو طاقت ور ، ترقی یافتہ، صاف ستھرا، معتبر اور پرامن بنانے کے لیے ایسی کانفرنسز منعقد ہونی چاہئیں، تاکہ نوجوان خواتین نسل کو آگاہی مل سکے، اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں، تاکہ ان کے درمیان خلش کی روش ختم اور محبت کا رشتہ قائم ہو، ہم نے مار کھائی، جیل کاٹی اور کیسز کا سامنا بھی کیا۔
زہرہ اکبر خان نے کہا کہ خواتین معیشت کا حصہ ہیں، بنیادی طور پر عورتوں کو منظم کرنا ہوگا، گھروں سے لوگوں کو جمع کرنا بہت مشکل کام ہے، ہماری محنت کش خواتین میں شعور کی کمی ہے، انہیں آج بھی نہیں پتا کہ ہم جو کام گھروں میں کرتے ہیں وہ آتا کہاں سے ہے، پیسے کون دیتا ہے ، خواتین کو شعوری طور پر طاقت ور ہونا پڑے گا، تاکہ عورتوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے لیے آواز اٹھا سکیں۔
ہم نے حیدرآباد اور کراچی میں ہزاروں عورتوں میں آگاہی مہم شروع کی اور اس کے مثبت اثرات نظر آرہے ہیں، آئے روز عورتوں پر تشدد اور ریپ کے کیسز کی خبریں سامنے آتی ہیں، فیکٹروں میں زبان، دماغی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا رہا ہے، آج بھی عورتوں کو مردوں کے برابر تنخواہ نہیں دی جاتی، عورت جب بھی اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آئی ہے تو وہ اپنا حق لے کر واپس جاتی ہے جو ہم سب کے مفاد میں ہوتا ہے۔
’’خواتین کی تعلیم ‘‘ پر منعقدہ سیشن کی صدارت زبیدہ مصطفٰی نے کی ، ناہید شاہ درانی، ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر طارق رفیع، صادقہ صلاح الدین، ذکیہ سرور، اعجاز فاروقی نے موضوع سے متعلق گفتگو کی جب کہ نظامت کے فرائض فوزیہ خان نے انجام دئیے۔ زبیدہ مصطفی نے کہا کہ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ بچے کو کیا چاہیے، ہمیں تعلیمی نظام کو ایسا بنانا ہوگا کہ بچہ اس میں خود دلچسپی لے، کیوں کہ جب تک ہماری دلچسپی نہیں ہوگی تو ہم کچھ نہیں بن سکتے، ہم اپنی مرضی کسی پر زبردستی مسلط نہیں کرسکتے، شروع سے ہی ہمیں اچھی کتابیں فراہم کرنی چاہئیں اور ہمیں اپنی زبان میں تعلیم دینی چاہیے، تاکہ آسانی سے سمجھ آسکے۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے اپنی بات کا آغاز اس بات سے کیا کہ، آج کل میں اسکول اور کالجز میں پڑھنے اور پڑھانے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے، اساتذہ کہتے ہیں ہماری تنخواہ کم ہے اس میں ہم اپنا گھر نہیں چلا سکتے، امتحان سے دو اور چار ماہ پہلے ٹیوشن میں پیکیجز دیے جاتے ہیں ، اب تو ٹیوشن میں لیبارٹریز بن گئی ہیں ، میر ا خیا ل ہے کہ ہمیں اس چیز پر غور کرنا چا ہیے ، ٹیوشن سینٹرز میں پڑھانا ضروری ہے ، اس کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے اور ہمیں نکالنا چاہیے۔
صادقہ صلاح الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں یکساں نظام تعلیم رائج کرنا چاہیے، اسکولوں کا برا حال ہے، مجھے لگتا ہے کہ اب آپ ایمرجنسیز کی ایجوکیشن شروع کردیں، ٹیمپریری لرننگ سینٹر بہت اچھی چیز ہے ،مگر یہ بچوں کے کھلونے کی طرح ہیں، بچیوں کی تعلیم کی کہانی بہت دُکھ بھری ہے، سیلاب زدگان کے لیے جو خیمے لگائے گئے ان میں جو بچے پڑھنے آتے تھے ان کی دلچسپی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی، ہمیں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ پڑھا لکھا معاشرہ تشکیل پا سکے۔
پروفیسر ذکیہ سرور نے کہاکہ بہت سی عورتوں کی کالج اور اسکول جانے کی تمنا پوری نہیں ہوسکی، ہمارا سماج بہت برا ہے، ہماری حکومت کو تعلیمی میدان میں اہم کردار کرنا ہوگا ، تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھرتی کریں ،تاکہ تعلیم کا معیار بہتر ہوسکے، عورت کو معاشرے میں اس کا مقام دینا چاہیے۔ ناہید شاہ درانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 75سال کی جدوجہد کے بعد بھی یہ صورت حال ہے کہ تقریباً40فی صد بچے اسکول سے باہر ہیں، ساؤتھ کوریا، سنگاپور، تائیوان، ہانگ کانگ اور چائنا نے غربت کے باوجود 40 سال میں تعلیم پر بہت توجہ دی اور نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے، پنجاب اور کے پی کے میں تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے، ہم بچیوں کوپڑھانے پر سنجیدہ نہیں ہیں، ہمیں والدین کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا، ہمیں نظام تعلیم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر طارق رفیع نے کہا کہ تعلیمی میدان میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے، 70فی صد بچے اسکالر شپ لیتے ہیں، جو داخلے ہوتے ہیں ان میں 60فی صد طبقہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، لڑکیاں پڑھنے میں دلچسپی لیتی ہیں، ہماری حکومت کو نوکریوں کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی میں ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے، کراچی میں بھی بوائز میڈیکل کالج بنایا جارہا ہے، انہوں نے کہاکہ ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا معاشرے میں مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے، اعجاز فاروقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے سینیٹ اور اسمبلیوں میں اَن پڑھ لوگ آئیں گے تو تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا، ہمیں اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا، حکومت کو تعلیم کی بہتری کے لیے سخت قانون بنانے چاہیے، تاکہ پاکستان کا مستقبل سنور سکے۔
”پاکستان میں خواتین کی تحریکیں، کامیابیاں اور چیلنجز“کے موضوع پر سیشن ہوا ،جس کے نظامت کے فرائض قرۃ مرزا نے انجام دئیے ۔پینلسٹ نے خواتین کی جدوجہد ،تحریکیوں اور کامیابیوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ ایک سیشن، خواتین کی صحت، پیداواری حقوق اور مسائل، دماغی صحت اور تندرستی“ پر کیا گیا، جس کی نظامت ڈاکٹر ہمامیر نے انجام دی۔
ڈاکٹر شیر شاہ سعید، ڈاکٹر روفینہ سومرو، روبینہ حسین، عائشہ میاں نے خواتین کی صحت سے متعلق در پیش مسائل پر گفتگو کی۔ آخری سیشن، ’’رول آف ویمن ان میڈیا ‘‘ کے موضوع پر ہوا، جس میں ہما امیر شاہ ،کیف غزنوی ،بی گل اور امبر راحم شمسی نے میڈیا میں خواتین کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی ،جب کہ نظامت کے فرائض ناجیہ اشعر نے انجام دئیے۔ چوتھی ویمن کانفرنس کا اختتام شیما کرمانی کی ڈانس پر فارمنس اور ایکما دی بینڈ کی شاندار پر فارمنس پر ہوا۔