• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ ۔۔۔۔۔ مریم فیصل
برطانیہ میں آئے دن کی ہڑ تالوں نے پریشان کرکے رکھ دیا ہے کبھی طب کے شعبے میں ہڑتال ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی تعلیمی سرگرمیاں ان ہڑتالوں سے متاثر نظر آتی ہیں تو کبھی ٹرین کا پہیہ ان ہڑتالوں کے باعث رکا نظر آتا ہے اور تو اور اب تو کچھ منگوانے یا کسی کو کچھ بھجوانے سے پہلے بھی یہ چیک کرنا پڑتا ہے کہ کہیں پوسٹ آفس والے بھی تو ہڑتال پر نہیں ہیں اور اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ پاسپورٹ والے بھی پانچ ہفتوں کے لئے ہڑتال کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں یک نہ شددو کیا کئی شد ،یہی محاورہ ذہن میں گونج رہا ہے لیکن اچھی خبر یہ بھی ہے کہ نرسز کے معاملات حکومت کے ساتھ طے پاگئے ہیں اور ٹیچرز یونین کی بات چیت بھی حکومت کے ساتھ جاری ہے اسی طرح امید ہے کہ باقی اداروں کے مطالبات اس حد تک مان ہی لئے جائیں گے کہ ہڑتالوں کا سلسلہ رک جائے گا اور برطانوی عوام سُکھ کا سانس لیں گی کہ چلو اب سب سیٹ ہے ۔ ویسے تو ٹوری حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ یہ ہڑتالیں رکے اور معیشت پھر سے ڈورنے لگے اسی لئے بجٹ میں عوام کو خوش کرنے کی کافی ٹافیاں رکھی گئی ہیں جیسے کہ کام کرنے والے والدین کو ان بچوں کے لئے بھی چائلڈ کیئر دی جائے گی جن کی عمریں نو ماہ ہو کیونکہ اس سے قبل نو ماہ کے بچوں کے والدین چائلڈ کیئر کے حقدار نہیں تھے ۔اب اس نئی اسکیم سے والدین کو اتنی اضافی رقم ضرور مل جائے گی کہ وہ اخراجات سے پریشان نہ ہوں اور زیادہ من لگا کر کام کریں، ویسے بھی ٹوری حکومت کا ہمیشہ سے موٹو یہی رہا ہے بینیفٹس سے زیادہ لوگ خود سے محنت کر کے کمانے پر توجہ دیں اس لئے پنشنرز کے لئے کچھ حد بندیا ں مقرر کر دی ہیں اور ویسے بھی کورونا وبا نے لوگوں کو یہ اچھا بہانہ دے دیا ہے کہ اب ہم کام کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں اس لئے ہمیں پنشن دے کر گھر بیٹھ کر بنا کچھ کام کئے عیش کر نے دیا جائے اور حکومت یہ کیسے دیکھ سکتی تھی کیونکہ بہرحال معیشت کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ورک فورس ہی کام آسکتی ہے اور جب لوگوں کو گھر بیٹھے بلاوجہ کی مراعات ملنا بند ہوں گی تبھی تو لوگ کمانے کے لئے محنت کرنے کا سوچیں گے ورنہ تو نکموں کی فوج تیار ہوتی رہے گی جو کرے گی بھی کچھ نہیں بس مراعات سمیٹنے کے بہانے تراشتی رہے گی جس سے ٹیکس بھرنے والوں پر بوجھ بڑھتا ہی رہے گا اور پھرجب بینیفٹس پر پلنے والے یورپین کو ملک سے باہر نکالنے کے لئے بریگزٹ کاکڑوا گھونٹ پی ہی لیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اپنی ہی قوم کو اس روش پر چلنے دیا جائے جس میں بنا کام کاج کے مراعات پر پلتے رہنے کے سپنے بنے جاتے رہے کیونکہ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے تو یہاں کون کام کرنا چاہے گا سب بیماری جیسے بہانوں کا استعمال کر کے مراعات پر تکیہ کرنے لگیں گے،ایسے میں ملک کا بٹا بیٹھنے میں کوئی کسر نہیں رہ جائے گی ۔
یورپ سے سے مزید