• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ون مین شو کا مطلب جمہوریت پر معاملات آگے نہیں بڑھا رہے، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) انتخابات از خود نوٹس کیس کے حوالے سے جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہاکہ فیصلے میں حکومت کے موقف پر مہر ثبت ہو ہو رہی ہے،ماضی میں کم از کم یہ نہیں ہوا کہ سوسائٹی اتنی تقسیم ہو کہ سیاسی جماعتوں میں آپس میں مسائل ہوں ۔

اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مسائل ہوں ججوں کے اپنے مسائل ہوں اور ملک اس نہج پر کھڑا ہو، ون مین شو کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے معاملات نہیں آگے بڑھا رہے ،حکومت ریویو کے لئے نہیں آئی اور نہ ہی اس حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہےیہ بہت اہم ہے۔

خصوصی نشریات میں منیب فاروق ،عبدالقیوم صدیقی ،شاہزیب خانزادہ اور حسن رضا پاشانے بھی اظہار خیال کیا۔ سینئر تجزیہ کارمنیب فاروق نے کہا کہ جو تفصیلی فیصلہ آیا اس سے تو اس بات پر مہر ثبت ہورہی ہے جو کہ حکومت کا موقف ہے۔اس کیس کے اندرپانچ نہیں بلکہ یہ سا ت رکنی بنچ تھااور اس کے اندر چار جو معزز جج صاحبان تھے انہوں نے نہ صرف یہ سوموٹو پروسیڈنگ ان کو اپنی وجوہات بتا کررد کیا۔

 یہ بھی کہا کہ کیوں کہ یہ معاملہ متعلقہ ہائی کورٹس کے اندر زیر التوا تھاسپریم کورٹ کے اندر اس کی اس طرح سے سنوائی ہو نہیں سکتی تھی اور بھی بہت سے ریزن دیئے ۔ عدالتی فیصلے سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ آرڈر آف دی کورٹ سات ممبران پر مشتمل تھااور چار تین سے یہ سوموٹو پروسیڈنگ ڈس مس ہوئی۔ یہاں کنڈکٹ کے حوالے سے بڑے شدید مسائل کا سامنا ہے ۔

اس کو آپ نارمل چیز نہ سمجھئےمیں بالکل نہیں چاہ رہا کہ ہم کسی چیز کو سنسنی خیز کریں لیکن یہ کسی ریگورلیٹری اتھارٹی کا فیصلہ نہیں ہے۔جہاں پر مختلف ممبران آپس میں الجھ پڑیں اور ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ کسی سپریئر جگہ پر جاکر اپیل ہوجائے گی ۔

 یہ سپریم کورٹ ہے اس کے معزز جج صاحبان ہیں ان کے اندر ڈویژن موجود تھی چلیں ہوجاتی ہے۔ لیکن یہاں تومسئلہ یہ ہے کہ جج صاحبان فرما رہے ہیں کہ نہیں یہ تو سات رکنی بنچ تھااس کا فیصلہ اور اس کی اہمیت ہے چار تین سے وہ ڈس مس ہوئی ہے۔

نمائندہ خصوصی جیو نیوزعبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ دراصل یہ سات جج صاحبان میں سے چار تین سے وہ از خود نوٹس مسترد ہوگیا ہے ۔ آج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل ان کا دو جج صاحبان کا ایک تفصیلی حکم تھا جس میں انہوں نے از خود نوٹس کو مسترد کیا تھااس کی تفصیلی وجوہات جاری کی ہیں۔

ان تفصیلی وجوہات کے اندر وہ کہتے ہیں کہ یہ از خود نوٹس184/3 کے تحت یہ بنتا نہیں تھا ۔جب ایک معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹ کے اندر جو اسپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب اوراسپیکر صوبائی اسمبلی کے پی درخواستیں لے کر آئے تھے۔ ان دونوں درخواستوں کواز خود نوٹس کو مسترد کرتی ہے اس کے مسترد کرنے کی وجوہات جو ہیں وہ یہ تفصیلی طور پر بیان کی گئی ہیں ۔

 ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ چار اور تین جج صاحبان کا فیصلہ ہے اور چار جج صاحبان جو ہیں انہوں نے از خود نوٹس کو مسترد کیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار،شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ جو بار بار فل کور ٹ کی بات ہورہی تھی اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگئی ہے۔

اہم خبریں سے مزید