• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اثرات صرف عدالت ہی نہیں سیاسی نظام اور مستقبل پر بھی ہونگے، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے متعلق نئی آئینی بحث شروع ہوگئی ہے.

 اس فیصلے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے،ملک میں انصاف کے سب سے بڑے ادارے میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ کسی کو پتا نہیں ہے لیکن اس کے اثرات صرف عدالت ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی نظام اور مستقبل پر بھی ہوں گے.

 وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہےکہ ہماری ڈیمانڈ ہے فل کورٹ ،ہم نے اس سے پہلے بھی کہا تھا کہ فل کورٹ بیٹھے ، وہ بیٹھ کر فیصلہ کرے،اگر وہ رویہ نہیں بدلے گا تو پھر ہم اس کے سامنے جھکیں گے تو نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جھک جائیں ، میں بتادوں کہ ہم کھڑے ہونے والے لوگ ہیں بھاگنے والے لوگ نہیں ہیں .

 چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے اور اس کی توقیر کو سلامت رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابھی بھی فل بینچ کانسٹیٹیوٹ کرکے ان معاملات کو حل کریں

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایف آئی آر تو خیر وہ ہمارے خلاف وہ کٹوانا چاہتا ہے درخواست دی ہوئی ہے اس نے آپ مجھے بتائیں اگر میں آپ کو یہ کہوں کہ شاہ زیب تیار ہوجاؤ میں کراچی آرہاہوں تمہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی اور میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں تو اس کے جواب میں آپ یا تو کراچی چھوڑ کے بھاگ جائیں گے اور اگر آپ بھی پھر سامنے کھڑے ہوجائیں گے تو پھر دونوں میں سے ایک ہی رہے گا ناں ۔ تو معاملہ یہ ہے کہ میں نے تو بڑی عام فہم بات کی ہے عمران کی سیاست ہی یہ ہے کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پھانسی لگاؤں گا یہ تک بھی کہا ہے اس نے لوگوں کے متعلق باقاعدہ نام لے کر تو جب اس کی سیاست یہی ہے تو اس کے جواب میں کیا ہم چھوڑ کے بھاگ جائیں یا پھر ہم نے فیصلہ کرلیا کہ ہم نے اپنے پورے قد سے کھڑے ہونا ہے تو پھر ٹھیک ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نہیں رہیں گے توہم کوشش کریں گے پوری کہ یہ ناں رہیں باقی جس کو اللہ رکھے وہ رہے ۔ ملک کا وزیر داخلہ یہ بات نہیں کرے گا تو ایک پارٹی کا سربراہ ، ایک سابق وزیراعظم روز یہ کہانی گھڑ کے لے آئے گا کہ انہوں نے پانچ بندے تیار کرلئے ہیں وہ ہمارے اندر آجائیں گے یا وہ آگے پولیس والوں کو قتل کریں گے پولیس والے آگے پھر ہمیں قتل کریں گے اس کی تو سیاست ہی اب یہ رہ گئی ہے ۔ وہ یا تو اپنے آپ کو قتل کروانا چاہتا ہے اور دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے اوپر اس قسم کا ارادہ رکھتا ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ اس نے بڑی محنت کی ہے پچھلے نو ، دس ماہ کہ ملک میں رواداری ختم ہوجائے ،عزت و احترام ختم ہوجائے جو اختلاف رائے کی برداشت کی بات ہے وہ ختم ہوجائے اور بات یہ آجائے کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا یہ چور ، ڈاکو ہیں ۔ آخر کب تک کوئی برداشت کرے گا۔ یہ بہت بڑی ناانصافی ہے جس کا شکار اگر قوم ہوگی آپ لوگ اگر اس میں اپنے آپ کو غیر متعلق رکھ کر بات کریں گے تو یہ اس ملک او رقوم کی تباہی کا باعث بنے گا ۔ مجھے بتائیں کیا یہ صورتحال ہم نے پیدا کی ہے ،ہم کیا بات کرنے کو ، بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں کیا ہم نے کہا ہے کہ ہم اس کو چھوڑیں گے نہیں ۔ہم نے کہا ہے یہ چور ، ڈاکو ہے اس کو ہم ہر قیمت پر ختم کریں گے یہ سب کون کررہا ہے پچھلے پانچ سال سے۔ آپ لوگ اگر انصاف او رحق کی بات نہیں کریں گے آپ مجھے بتائیں میں آپ کے اوپر ایک ایسا مقدمہ بناؤں جس کی سزا مو ت ہو تو کیا آپ کو سمجھ نہیں آجائے گی کہ میری نیت کیا ہے ۔ یہ سارا کچھ دیکھ کر آپ نے تو وہ لمحات اور واقعات دیکھے اور سنے بھی ہوں گے کہ پوری اپوزیشن ایک کمرے میں بیٹھی اور وزیراعظم کا انتظار کررہی ہے اس وقت کا چیف آف آرمی اسٹاف جوہے وہ وزیراعظم کی منتیں کررہا ہے کہ جائیں آپ نے بریفنگ کرنی ہے وہ کہتا ہے میں ان چوروں کے ساتھ ملوں ، میں تو ان ڈاکوؤں کو دیکھنا نہیں چاہتا میں ان کو چھوڑوں گا نہیں ۔ میں ان سے ہاتھ نہیں ملانا چاہتا ۔ میں بتادوں کہ ہم کھڑے ہونے والے لوگ ہیں بھاگنے والے لوگ نہیں ہیں ۔ حل یہ ہے کہ جس نے اس فتنہ کی اور فساد کی سیاست کی بنیاد رکھی ہے اس کی آپ نشاندہی کریں ۔ اسے شرم نہیں آتی یہ کہتا ہے کہ ان کے ساتھ اگر نامعلوم ناں ہوں تو حکومت ختم ہوجائے گی ۔ اس سے پوچھے کوئی کہ تمہیں لے کر کون آیا تھا تمہارے پروجیکٹ کی جو ہے کامیابی وہ کس نے کروائی تھی ۔ یہ بالکل غلط ہے کہ ہم باجوہ صاحب کو بھول گئے ہیں ، باجوہ صاحب کا کردار ساری دنیا کے سامنے ہے بالکل ہم اس کردار کی مذمت کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے بتائیں یہ سپریم کورٹ سے جس قسم کے فیصلے ہوئے او رہوتے رہے ہیں جس قسم کا کانسٹیٹیوشن ری رائٹ ہوتا رہا ہے جس طرح سے پنجاب حکومت ختم کی گئی اور جس طرح سے ان کی فیملی جو ہے وہ گیلری میں آکر بیٹھی تھی جس دن میاں نواز شریف کو نااہل کرنا تھا اور وہاں پر ان کی فیملی جو ہے وہ نعرے لگارہی تھی آپ مجھے بتائیں اس کے بعد پھر کون ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے اوپر جوہے وہ اعتماد کا اظہار کرے گا ۔جی ہماری ڈیمانڈ ہے فل کورٹ ،ہم نے اس سے پہلے بھی کہا تھا کہ فل کورٹ بیٹھے ، وہ بیٹھ کر فیصلہ کرے جو ایک معزز جج نے کہا تھا کہ ذرا یہ تو دیکھ لو کہ یہ اسمبلیاں جو ہیں وہ آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ٹوٹی ہیں یا ایک آدمی کی ضد ،ہٹ دھرمی ایک آدمی کی فتنہ پروری کی نظر ہوئی ہیں ۔ یہ چیزیں دیکھنا چاہئے ناں ۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں پوری قوم کو آگے لگاؤں گا اورمیں ہر چیز کو روند ڈالوں گا یہ کیسے ہوسکتا ہے یہ ممکن نہیں ہے اگروہ اس رویہ سے باز نہیں آئے گا توپھر اس کا جواب وہی ہے جو میں نے دیا ہے اور ٹھیک کوئی بھلے پھر برا منائے کس حد تک بات بنتی اور کس حد تک نہیں بنتی ہے میں نے تو سادہ سی بات کی ہے ۔ اب حل یہی ہے کہ وہ ہمیں یا ہم اسے نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ تو حکومت میں کہتا رہا ہے کہ مجھے اختیار ہو تو میں پانچ سو آدمیوں کو پھانسی لگاؤں ، تو پھر آپ اس کو حکومت پلیٹ میں رکھ کر دیدیں تاکہ یہ ہمارے گلے پر چھری چلائے ۔بالکل یہ غلط ہے مگر اس غلط کی بنیاد تو اس نے رکھی ہے یہی تو مخالف کو چور کہتا رہا ۔اگر وہ رویہ نہیں بدلے گا تو پھر ہم اس کے سامنے جھکیں گے تو نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جھک جائیں ۔چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا نے کہا کہ 23فروری کو دو ججز صاحبان جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب نے دو ٹوک تین پٹیشن او رسوموٹو ان تینوں کو ریجیکٹ کردیا تھا اور 23فروری کی تاریخ کو آپ اس کیس کی ہیئرنگ کو اس میں سے نہیں نکال سکتے بعد میں یہ ہوا کہ دو جج صاحبان نے معذرت کی اور یہ مسٹری تھی یہ جو جسٹس اطہر من اللہ اور یہ جو جسٹس یحییٰ آ فریدی انہوں نے معذرت کی یا ان کو نکالا گیا او رآج کا جو تفصیلی فیصلہ ہے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل کا اس میں یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے معذرت نہیں کی تھی بلکہ ان کو نکالا گیا تھا جب دو ججز صاحبان نے اپنے 23فروری کے فیصلے میں اس کو ڈسمس کردیا تین پٹیشن کو اور ساتھ ہی انہوں نے جوسوموٹو لیا اس کو بھی انہوں نے ڈسمس کردیا تو پھر باقی جو دو ججز رہ گئے تھے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل صاحب انہوں نے اپنے فیصلے کے فٹ نوٹ میں یہ لکھا تھا کہ تین دو کا اس کے ساتھ ملایا جائے تو یہ پھر چار تین ہی بنتا ہے میرے حساب سے ۔یہ ہے Contempt Petition against the Judgement pass by Five Members Bench جس میں تین دو کا تھا ،لیکن اگر ان چار کو شامل کیا جائے جو پہلے تھے تو پھر چار تین کا بنتا ہے میرا خیال اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پہلے اس سوال کو حل کرنا چاہئے کہ چار ججز نے اپنا فیصلہ اس حوالے سے دیدیا کہ پٹیشن ڈسمس ہیں او ریہ جو اختیار استعمال کیا گیا اس سے بھی انہوں نے Negate کیا تو پھر یہ Contemptنہیں بنتی ہے میرا ذاتی خیال ہے اس کو پہلے دیکھنا چاہئے ۔ حسن رضا پاشا نے کہا کہ ماسوائے چیف جسٹس صاحب کے اور کسی کے پاس اس وقت اختیار نہیں ہے اور ہم بھی بطور ادارہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے اور اس کی توقیر کو سلامت رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابھی بھی فل بینچ کانسٹیٹیوٹ کرکے ان معاملات کو حل کریں جو اچھے وکیل ہیں سپریم کورٹ کے ان کو آن بورڈ لیں اور فل بینچ اس کا فیصلہ کرے کہ کیا.

 چیف جسٹس کا یہ فیصلہ کہ جی وہ پہلے چلے گئے تھے او رتین ، دو کا ہے یا آیا چار تین کا ہے جس طرح کے حکومت کہہ رہی ہے تو اس طرح تو یہ بیچ میں رہے گا اگر آج یہ پانچ رکنی بینچ کوئی فیصلہ اور کرتا ہے توان کی جو حساسیت ہے وہ کس طرح برقرا رہے گی ۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کب ہوں گے، اس حوالے سے سپریم کورٹ میں اہم ترین سماعت شروع ہوگئی ہے

لیکن ساتھ ہی دونوں صوبوں میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس پر دو ججوں کا ایک اہم تفصیلی فیصلہ بھی سامنے آگیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال الدین مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے آج یکم مارچ کے فیصلے کی خلاف ورزی سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت شروع کی ہے لیکن آج کی سماعت مکمل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ازخود نوٹس پر اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، جس کے بعد اس فیصلے سے متعلق نئی آئینی بحث شروع ہوگئی ہے، یعنی سپریم کورٹ نے آج جس فیصلے کی خلاف ورزی سے متعلق سماعت شروع کی ہے اس فیصلے پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے

یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کا فیصلہ ہے یا چار تین کا فیصلہ ہے اس حوالے سے ابہام پیدا ہوگیا ہے، چیف جسٹس نے جسے تین دو کا فیصلہ قرار دیا آج دو ججوں نے اسے چار تین کا فیصلہ قرار دیا ہے اور نتیجہ الٹ ہے، چیف جسٹس کے سوموٹو دائرہ اختیار اور عدالت کو چلانے کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھادیئے گئے ہیں

 ملک میں انصاف کے سب سے بڑے ادارے میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ کسی کو پتا نہیں ہے لیکن اس کے اثرات صرف عدالت ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی نظام اور مستقبل پر بھی ہوں گے۔

اہم خبریں سے مزید