لاہور( این این آئی) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلا ء کنونشن میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف مذمتی قرارداد سمیت سات قراردادیں منظور کی گئیں .
کنونشن میں ملک بھر کی وکلا تنظیموں کی شرکت اپیل کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے سوا تمام پاکستان بار ، پنجاب بار، سندھ اور بلوچستان بار ایسوسی کے نمائندوں نے غیر اعلانیہ طور پر کنونشن کا بائیکاٹ کیا اور انکے نمائندے شریک نہیں ہوئے
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے از خود نوٹس سے متعلق نئے قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کنونشن میں منظور کی گئی تمام قراردادیں متفقہ ہیں اور کسی ایسوسی ایشن نے بائیکاٹ نہیں کیا۔
کنونشن میں منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو آئینی مدت سے تجاوز کرکے انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ کی جوڈیشل طاقت ہماری ریڈ لائن ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا ،ہم اس کا دفاع کریں گے.
آئین کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں گے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا،سب چاہتے ہیں اصلاحات ہوں لیکن بل غلط وقت پر پیش کیا گیا،سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور آئین کی خلاف ورزی کے ارادے سے سپریم کورٹ کے ججوں پر حملے قابل مذمت ہیں.
عدالت عظمی کے ججوں کے درمیان اختلافات کے منظر عام پر آنے پر وکلا ء سخت پریشان ہیں کیونکہ اس سے آئین کے تحت ایک اہم ادارے کی حیثیت سے عدلیہ کے تقدس اور احترام کو نقصان پہنچ سکتا ہے
چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ ادارے کے وسیع تر مفاد میں سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے مابین اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کریں۔
لاہور میں منعقد ہ آل پاکستان وکلاء کنونشن سے سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری ، لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر اشتیاق اے خان ،سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مقتدر اختر شبیر، سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسویسی ایشن صباحت رضوی، رکن پاکستان بار کونسل شفقت چوہان ،ڈاکٹر بابر اعوان ،جسٹس (ر)شبر رضوی ،نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ربعیہ باجوہ ،سینئر قانون دان حامد خان، عابد ساقی سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا ۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور ختم نہیں ہو سکتی، یہ ہماری ریڈ لائن ہے جس کا ہم دفاع کریں گے۔
لاہور ہائیکورٹ کا جو فیصلہ ہے 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں وہ کہاں ہے، آئین کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں گے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر فل کورٹ بننا ہے تو 15 ججرز کا بنے گا ورنہ نہیں بنے گا، سب چاہتے ہیں اصلاحات ہوں لیکن بل غلط وقت پر پیش کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کوتاریخ پراعتراض تھا تو نظرثانی درخواست دیتی، تاریخ تبدیل کرنے کا الیکشن کمیشن کو کیا اختیار تھا، اداروں نے آئین اور قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے.
لہٰذاوقت آگیا ہے آئین توڑنے والوں پر آرٹیکل 6 لگایا جائے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتی، ایک ہی مطالبہ ہے چیف جسٹس اپنا ہاؤس آرڈر میں کریں، جب جوڈیشری پر حملہ ہوگا ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ زیادتی کسی جماعت سے ہو فرد سے یا حسان نیازی سے قبول نہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے ہم سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں، لیکن میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ کالے کوٹ کے ساتھ ہوں۔
عابد زبیری نے مطالبہ کیا کہ اختلاف جمہوریت کی خوبصورتی ہے ،جو بھی قانون کی بالادستی کی بات کرے گا اس کے ساتھ ہیں، عہد کریں ایک ادارے کی حیثیت سے آئین اور عدلیہ کے ساتھ ہیں
الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے وہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انتخابات کرائے۔بابر اعوان نے کہا کہ جیسے اچھے اور برے دہشتگر تھے اب سوموٹو بھی برا اور اچھا ہو گیا ہے ، جو سومو ٹو آپ کو مسند پر بٹھانے کے لئے ہو وہ اچھا سو موٹو ہے ۔جو بھی کام ماورائے آئین کیا جائے گا اس کا نتیجہ درست نہیں ہوگا۔
آئین کے مطابق انتخابات کے لئے جو وقت ہے اس سے ایک دن ایک گھنٹہ ایک منٹ بھی فالتو قبول نہیں ہے ۔
انہوں نے کہاکہ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر جاتے ہیں لیکن انہیں واپس یہی آنا ہوتا ہے ، عہدہ ،دل کنٹریکٹ ٹوٹتا ہے ،سیاست ٹوٹتی ہے لیکن انہیں لوٹ کر یہی آنا ہے اور بار انہیں گلے لگاتی ہے ۔ گرمی ہو سردی ہو ،سپر مارشل لاء ہو غیر اعلانیہ مارشل بار ایسوسی ایشنز اپنے اندر جمہوریت کو زندہ رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈر کس چیز ہے ہمت پیدا کرو اور انتخابات کے ذریعے قوم کا فیصلہ قبول کرو،آئین میں چار جگہ لکھا ہوا ہے کہ لوگ فیصلہ کریں گے،ایک شخص ایک ووٹ ہوگا.
الیکشن کے ذریعے فیصلہ ہو گا، کیا یہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کرا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جو قانون سازی کی جارہی ہے صدر کے پاس دو راستے کھلے ہیں ، وہ آئینی طور پر چاہیں تو ایک ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیج سکتے ہیں یا بل واپس کر سکتے ہیں ،اس بل میں کچھ مطالبات ہیں جنہیں بار ایسوسی ایشنز ہمیشہ اٹھاتی رہیں گی ۔
انہوں نے کہا کہ وکلا ء قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں ،رات کو سوموٹو نوٹس پر عدلیہ کے لئے رولز بنائے گئے ۔جسٹس (ر)شبر رضوی نے کہا کہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر وقت سے پہلی قومی یا صوبائی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں لیکن یہ کہہ رہے ہیں یہ تاخیر سے ہوں گے ،الیکشن کمیشن آئین و قانون کے خلاف اقدامات کر رہا ہے.
آرٹیکل 5 کے تحت اس ملک میں روز قانون سے روگردانی ہورہی ہے،آئین سے انحراف ہوگا تو آرٹیکل 6 موجود ہے،جس طرح کا تماشہ آج لگا ہے پہلی مرتبہ نہیں ہے،71 میں بھی ایسا ہی تھا ہر کوئی آئین کی اپنی تشریح اور اصلاحات کر رہا تھا،قوم نے سیکھا نہیں اس وقت آدھا پاکستان ہم سے چلا گیا،بدقسمتی سے ہم آج بھی سیکھ نہیں رہے ،1947 میں جو پاکستان بنا تھا 71 میں توڑ دیا گیا،خدا راہ اب اس ٹوٹے ہوئے پاکستان کو ناں توڑیں۔
شفقت چوہان نے کہا کہ وکلا ء کنونشن وقت کی ضرورت تھی ،قانون کی حکمرانی کی بات ہونی ہے ، اگر الیکشن کمیشن کی بات مان لی جائے تو پھر الیکشن نہیں ہوںگے،90 دنوں میں انتخابات کرانا آئینی تقاضہ ہے۔
حامد خان نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کو چاہیے کہ سب ججز کو اکھٹا کریں ،سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے ،مل بیٹھ کر آئین کا تحفظ کریں یہ وقت کی ضرورت ہے ،بار کونسل کو سیاسی جماعتوں کا آلہ کار نہیں بنانا چاہیے ،بار کونسل وکلا ء کے حقوق کی محافظ ہیں ۔
منظور کی گئی قراردادوں اور وکلاء نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہم ان لوگوں کی کارروائیوں اور طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں جو آئین کے تحت مقررہ مدت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے آئین کی واضح شقوں کی خلاف ورزی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں،ہم آئین کی ایسی دفعات کے بارے میں سپریم کورٹ کی تشریح کی مکمل حمایت کرتے ہیں اورالیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ آئینی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کریں
الیکشن کمیشن کے پاس آئین کی مقررہ مدت سے زیادہ انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس کی ایسا کرنے کی کوشش واضح طور پر غیر آئینی اور انتہائی قابل مذمت ہے
،کنونشن سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور آئین کی خلاف ورزی کے ارادے سے سپریم کورٹ کے ججوں پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے،عدالت عظمی کے ججوں کے درمیان اختلافات کے منظر عام پر آنے پر وکلا ء سخت پریشان ہیں کیونکہ اس سے آئین کے تحت ایک اہم ادارے کی حیثیت سے عدلیہ کے تقدس اور احترام کو نقصان پہنچ سکتا ہے.
کنونشن چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے مابین اختلافات کو ادارے کے وسیع تر مفاد میں خوش اسلوبی سے حل کریں،کنونشن پاکستان بھر کی تمام بار کونسلوںاور بار ایسوسی ایشنوںسے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاست دان کے دباو یا اثر و رسوخ کے بغیر آزادانہ طور پر کام کریں تاکہ اپنے آزاد موقف کو یقینی بنایا جا سکے۔
کنونشن میں کہا گیا کہ یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہیں اور اسے بدنام کر رہے ہیں
پاکستان بھر کے وکلا ء عدلیہ کے اندر اختلافات کے عوامی سطح پر سامنے آنے پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں، وکلا چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو اکٹھا کریں تاکہ عام طور پر عدلیہ کے وقار اور سالمیت کو برقرار رکھا جا سکے۔