الیکشن التواء کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال جذباتی ہوگئے، ریمارکس دیتے ہوئے ان کی آواز بھر آئی، انہوں نے کہا کہ جسٹس مظاہر کو بینچ میں شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دینا تھا، سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل کی اٹارنی جنرل کی درخواست مسترد کر دی۔
اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب اور کے پی انتخابات ملتوی کیس کے لیے نیا بینچ تشکیل دے دیا، اس ضمن میں سپریم کورٹ نے سپلیمنٹری کاز لسٹ جاری کر دی۔
کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔
نیے بینچ کے ساتھ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کونسل حسن رضا پاشا روسٹرم پر آ گئےجنہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کا کسی کی حمایت یا مخالفت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، جہاں تک ججز کے تعلقات کی بات ہے تو ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، کل اور آج 2 ججوں نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے درمیان باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی، کچھ نکات پر آپس میں گفتگو ناگزیر ہے، کچھ سیاسی معاملات سامنے آئے جن پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تڑکا ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں کچھ دوسرے ججز پر، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
اس موقع پر پاکستان بار کونسل نے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس نے حسن رضا پاشا سے کہا کہ آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، گزارشات سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آ کر مجھ سے ملیں، آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پُرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، اکثر جھوٹ بھی ہوتا ہے، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہو گا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! جو نکات اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی تھی، عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے سیاسی درجۂ حرارت کم ہونے دیں، ملک میں ہر طرف درجۂ حرارت کم کرنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ درجۂ حرارت کم کرنے کے لیے آپ کو ہدایات لینے کا کہا تھا، اس پر آپ نے کیا کیا؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ صرف وقت درکار ہے، وقت کے ساتھ ہی درجۂ حرارت کم ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا تھا، میری زندگی کا معجزہ تھا کہ جب ججز بحال ہو کر واپس دفاتر میں آئے، 90ء کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آ سکے، اس واقعے نے میرا زندگی کا نظریہ ہی بدل دیا، آئین ہی جمہوریت کو زندہ رکھتا ہے، کل تک جو جیلوں میں تھے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی 5 سال کی مدت ہوتی ہے لیکن ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، اسمبلیاں تحلیل ہونے سے لے کر اب 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، انہیں حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل کی تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں، یہ ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کر لیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے، ہر فریق کے ہر نکتے کا فیصلے میں ذکر کریں گے، 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، ہم نے اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی از سرِنو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہو گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میں نے ججز کی سماعت سے معذرت پر کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیرِ بحث لائیں گے، آپ درجۂ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ججز تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے، درجۂ حرارت کم کرنے والے آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اگر آپ فل کورٹ پر دلائل دینا چاہتے ہیں تو دیں، فل کورٹ کا معاملہ میرے ذہن میں تھا، فل کورٹ کی تشکیل سے قبل کچھ عوامل کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال جذباتی ہو گئے، ریمارکس دیتے ہوئے ان کی آواز بھر آئی۔
’’جسٹس اطہر من اللّٰہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا‘‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک عمل یہ ہوتا ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں، موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، بعض اوقات تمام ججز پرنسپل سیٹ پر دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچز تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت میں نے تمام ججز کے بارے میں سوچا تھا، 9 رکنی بینچ بناتے وقت سوچا تھا کہ سینئر سے نئے تک تمام ججز کی نمائندگی ہو، میں نے جسٹس اطہر من اللّٰہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجازالاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ جسٹس مظاہر کو 9 رکنی بینچ میں کیوں لیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر مائی لارڈ یہ بات کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔
’’جسٹس مظاہر کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا‘‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دینا تھا، 2019ء سے 2021ء تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فل کورٹ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس کی بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، سپریم کورٹ کے ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، عدالتِ عظمیٰ متحد تھی اور کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے کل بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جا رہا ہے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو پھر میرا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’ٹیکس کے معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں؟ ‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللّٰہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا، جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس کے معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں؟ جسٹس اقبال حمید الرحمٰن کو استعفے سے روکا تھا، جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن نے کہا تھا کہ مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں اپنے دلائل جلدی ختم کر دوں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف پورا نہیں سنا گیا۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرنا چاہتا ہوں، روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہو سکتے ہیں تو ہم بھی ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ آپ کو سنیں گے، آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصر بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں، میں اِدھر اُدھر کی باتوں سے جذباتی ہو گیا تھا، مسئلہ ملک میں سیکیورٹی کا بھی ہے، نصف پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس یا حساس ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی ہے، دہشت گردی تو 90ء کی دہائی سے ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں، یہ بھی دیکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، وہ بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ 2 ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں کہاں لکھا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب سیکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ پہلے آپ سیاسی جماعتوں کو سن لیں، بعد میں دلائل دوں گا، ملک کے معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 8 اکتوبر تک انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں اس پر جواب دیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک، اکرم شیخ اور کامران مرتضیٰ کو بھی سنیں گے، پہلے ریاستِ پاکستان کو سننا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ معاملہ 20 ارب روپے کا نہیں پوری معیشت کا ہے، ملک کو 1500 ارب کے خسارے کا سامنا ہے، 30 جون تک شرحِ سود 22 فیصد تک جا سکتی ہے، شرحِ سود بڑھنے سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ماضی کے قرضوں پر بھی نئی شرح سود لاگو ہوتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ 2 ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں کہاں لکھا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب! سیکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے؟ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500 ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہو گا؟ الیکشن کے اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے؟
اٹارنی جنرل پاکستان نے جواب دیا کہ فنڈز وزارتِ خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا اکتوبر تک بجٹ خسارہ ختم ہو جائے گا؟
اٹارنی جنرل پاکستان نے جواب دیا کہ امید ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہو کر فنڈز مل جائیں گے، موجودہ مالی سال میں الیکشن کا نہیں سوچا تھا، کیا عدالت اس موقع پر فل کورٹ کی استدعا قبول کرے گی؟
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ لگتا ہے آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر آپ کو وقت درکار ہے تو فراہم کر دیں گے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ عدالت اس دوران فل کورٹ کی استدعا پر غور کرے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی، جو قیمتی وقت گزر چکا مزید ججز شامل کرنے سے ضائع ہو گا، نئے ججز کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعداد و شمار بتائے، حکومت سے ان کی تصدیق چاہتے تھے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز واضح ہیں کہ 184/3 کے مقدمات 2 سے زیادہ رکنی بینچ سنے گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت کے سامنے فریقین وہ ہیں جو حکومتیں چلاتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے 3 ایشوز پر بات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، سوموار تک فریقین کو سوچنے کا موقع دیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2021ء کے از خود نوٹس والے عدالتی فیصلے کو پڑھیں، فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے، حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ انتہائی سنگین الزام ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی کہ چیف جسٹس بینچ ماسٹر آف دی روسٹر ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کا ذکر کرنے کی نہیں تھی، عدالت کے باہر درجۂ حرارت بہت زیادہ ہے، تمام ججز کے لکھے گئے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کسی مقابلۂ حسن میں نہیں عدالت میں بیٹھتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی قانون کی بات کرنا چاہتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ شاید 3 منٹ بات کر کے لاہور جانا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین کی منشا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں انتخابات ہوں، 90 دن میں اب الیکشن نہیں ہو سکتے تو مزید کتنے دن درکار ہوں گے؟ کتنے دن درکار ہوں گے عدالت نے اس نقطے پر غور کرنا ہے، کوئی ضابطہ اور قانون فل کورٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کے لیے صرف درخواست دی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے، انتخابات تک تمام فریقین سے پُرامن رہنے کی گارنٹی چاہتے ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل کی اٹارنی جنرل کی درخواست مسترد کر دی اور کیس کی سماعت 3 اپریل تک ملتوی کر دی۔
انتخابات کے دوران پُرامن رہنے اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی پاکستان تحریکِ انصاف نے تحریری یقین دہانی سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔
تحریری یقین دہانی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف حکومتی جبر جاری ہے، جمہوریت کی بقا کے لیے عدالت کو یقین دہانی کرا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا تحریری یقین دہانی میں کہنا ہے کہ پُرامن رہیں گے، اگرتمام جماعتیں الیکشن مہم اور پولنگ ڈے پر پُرامن رہیں گی۔
پی ٹی آئی کی تحریری یقین دہانی میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی پُرامن رہے گی اگر انتخابات میں کوئی کرپٹ پریکٹس نہ ہو۔
یقین دہانی میں پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی پُرامن رہے گی، اگر ہرقسم کے ہتھیاروں اور ایریل فائرنگ پر پابندی ہو گی۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پاکستان تحریکِ انصاف کی تحریری یقین دہانی میں کہا گیا ہے کہ صرف ان جگہوں پر جلسے اور ریلیاں نکالیں گے جہاں سیکیورٹی کی یقین دہانی ہو گی۔
اس سے قبل جسٹس جمال خان مندوخیل نے الیکشن التواء کیس سننے سے معذرت کر لی جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے مقررہ وقت پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ کمرۂ عدالت پہنچا۔
بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل بھی شامل تھے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ سے پہلے جسٹس جمال خان مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کر لی اور کہا کہ جسٹس امین الدین خان نے کیس سننے سے معذرت کی، جسٹس امین کے فیصلے کے بعد مجھے حکم نامے کا انتظار تھا، مجھے عدالتی حکم نامہ کل گھر میں موصول ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حکم نامے پر میں نے الگ سے نوٹ تحریر کیا ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ اختلافی نوٹ پڑھ کر سنائیں۔
اٹارنی جنرل نے جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں بینچ کا ممبر تھا، مگر میرے ساتھ فیصلہ تحریر کرتے وقت مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں بینچ میں مس فٹ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ دعا ہے کہ اس کیس میں جو بھی بینچ ہو، ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو، اللّٰہ ہمارے ادارے پر رحم کرے، میں اور میرے تمام ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، شاید فیصلہ لکھواتے وقت مجھ سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی یا مجھے مشورے کے قابل نہیں سمجھا گیا، اللّٰہ ہمارے ملک کے لیے خیر کرے۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے جسٹس جمال مندوخیل کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ بہت بہت شکریہ، بینچ کی تشکیل کا جو بھی فیصلہ ہو گا کچھ دیربعد عدالت میں بتا دیا جائے گا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کے کمرۂ عدالت نمبر 1 میں 3 کرسیاں لگادی گئیں۔
الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی گزشتہ روز کی سماعت کے حکم نامے میں جسٹس جمال مندوخیل نے الگ سے اختلافی نوٹ تحریر کر دیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکم نامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ حکم نامہ تحریر کرتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے مطالبہ کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا کھلی عدالت میں جائزہ لیا جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے التوا کے کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
حکم نامے کے مطابق بینچ کے 3 ارکان جسٹس امین الدین کے مؤقف سے اختلاف رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس امین الدین نے اپنے فیصلے کی روشنی میں سماعت جاری رکھنے سے معذرت کر لی۔
حکم نامے میں عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس اعجاز، جسٹس منیب کے مطابق سماعت جاری رکھی جاسکتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے حکم نامے میں جسٹس مندوخیل کے سماعت جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر کوئی رائے شامل نہیں ہے۔
الیکشن التواء کیس میں 5 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے باقی 3 ججوں کے ساتھ آج پھر سماعت کرنی تھی۔
بقیہ 3 ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کے بینچ سے الگ ہو جانے کے بعد اب اس بینچ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر رہ گئے۔
گزشتہ روز جسٹس امین الدین یہ کہتے ہوئے بینچ سے الگ ہوئے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت رولز بننے تک 184/3 کے مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے باوجود کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے، اس لیے وہ اس کیس کو سننے سے معذرت کر رہے ہیں۔