اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے جو آج (منگل ) کو کسی بھی وقت سنایا جائیگا۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا پیغام پہنچائیں کہ ابھی بھی وقت ہے معاملات کو سیاسی طور پر حل کریں ایسا نہ ہو کہ کوئی دوسرا غیر ضروری ایشو آ جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ اپنے ججز خود چننا چاہتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات کیلئے ججز خود منتخب کیے ہوں، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، حکومت نے کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ رکاوٹیں دور کرنا اسکی ذمہ داری ہے، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ جسٹس فائز کے فیصلے کو سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے، انتخابات کا معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک طرف کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں، ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، آپ کا موقف مان لیں تو فل کورٹ پر بھی سماعت نہیں کرسکتا۔وکیل پیپلز پارٹی ہم نے کیس کا بائیکاٹ نہیں کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ لکھ کردیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا،انہوں نے کہا ہے کہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے 8 اکتوبر کو کیسے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟،آٹھ اکتوبر میں ایسا کیا ہے جس سے حکومت کو اعتماد ملتا ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر انتخابات کے اخراجات کے لیے تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے آبزرویشن د ی ہے کہ اگر تنخواہوں میں کٹوتی میں قانونی رکاوٹ ہے ؟تو عدالت اسے ختم کردیگی، سماعت مکمل ہونے کے بعد فاضل چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ جمہوریت کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ کل تک جن پر الزامات تھے وہ آج قیادت کررہے ہیں،ہم اداروں کی عزت کرتے ہیں، اچھی بات ہے کہ الیکشن ایک ساتھ منعقدہوں لیکن دو اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں اور کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں،بدقسمتی سے سارا بوجھ عدالت پر ڈال دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا عدالت کا اختیار ہے، کچھ لوگوں کو فیصلے کے لیے پسند کے جج کیوں چاہئیں ؟عدالت نے سیکرٹری دفاع کو تحریری تفصیلات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ وزارت دفاع اور خزانہ کی رپورٹوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔
چیف جسٹس ،عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تواٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان ،الیکشن کمیشن کے وکلاء سجیل سواتی اور عرفان قادر، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری الیکشن کمیشن اور ڈپٹی سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔
فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سماعت کا بائیکاٹ ختم کردیا ہے ؟تو انہوںنے کہا کہ میں نے تو کوئی بائیکاٹ نہیں کیاہے ،جس پرچیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیاہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ ایک طرف توبائیکاٹ اور دوسری طرف سماعت کا حصہ بھی بن رہے ہیں؟جس پر فاضل وکیل کہا کہ ہمیں اس بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پچھلے 48 گھنٹوں سے قومی میڈیا کہہ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں اس بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں،اگر آپ کو ہم پر اعتماد ہی نہیں ہے توآپ دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر آپ نے اعلامیہ واپس لے لیا ہے تو آپ کا موقف بھی سن لیتے ہیں،چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم تو کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور ہی لکھا تھا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ ایک جانب تو بینچ کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہیں اور دوسری جانب کارروائی کا حصہ بھی بن رہے ہیں، حکومتی اتحاد(پی ڈی ایم ) کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، جس پر جمعیت العلمائے اسلام کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ہمارے تحفظات اس بینچ پر ہیں جبکہ فاروق ایچ نائیک ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر بھی تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے توآپ عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، اور اگر بائیکاٹ نہیں کیا ہے تو لکھ کردے دیں،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک ایک وکیل دلائل دے سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی بنچ پر عدم اعتماد کیا ہے، جس پر اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے کہا کہ وکیلوں کا اس بنچ میںآنا ہی اعتماد کو ظاہر بھی کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے استفسار کیا کہ آپ کو کیا ہدایات ملی ہیں؟جس پر انہوں نے واضح کیا کہ حکومت عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ایک سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آئین وقانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر ہی انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، انہوں نے کہاکہ عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر اپنے احکامات جاری کرتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، قواعد بننے تک سماعت موخرکی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی درخواست کے قواعد بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کردیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کے پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا از خودٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے سپیکروں کی درخواستیں آئی تھیں، سپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کے لیے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا،ہم نے ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے قواعد بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کاروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں، ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پہلے طے تو کر لیں کہ سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ آپ کا موقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتاہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا،کہ کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے، تمام 15 جج مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے ہیں، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی ہے، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورت حال سب کے لیے ہی مشکل ہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ پیش ہوئے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی کا ہے ، دونوں افسران کا موقف سن کر انہیں واپس بھیج دیتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر اِن کیمرا سماعت کی جائے،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ فائلیں دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا ہی نہیں؟ بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشن محفوظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا ہے، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سماعت کر لیں گے، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں، عدالت کی ہدایت پر سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ)حمود الزمان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے ہم حساس معلومات نہیں لیں گے، صرف مجموعی صورتحال بتا دیں، فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ خیبرپختونخواء میں ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی گئی ہے، کیا پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سیکیورٹی کے حالات سنگین ہیں، میں کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا ہوں، ہم نہیں چاہتے کہ معلومات دشمن تک پہنچ جائیں ،جس پرعدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا اور چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ِان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا موقف ہے؟تو انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتخابات منعقد کروا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو کومبیٹ(لڑنے والے ) والے اہلکار درکار ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں،سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گی، کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گیے، آپ چاہیں تو تحریری جواب بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں، پبلک نہیں ہونے چاہئیں، نیشنل سیکیورٹی اہلکاروں اورعوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں ہے، سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کے لیے کومبیٹ(لڑنے والے) اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آجائے گا،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں،چیف جسٹس نے کہاکہ جن علاقوں میں سیکیورٹی صورتحال حساس ہے ،ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کو حساس قرار دیا ہے، ضلع جھنگ پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں رہا ہے، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے، عدالت نے سیکرٹری دفاع سے ایک گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی۔
سیکرٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے اور ان کی جگہ پر ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود پیش ہوئے،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟تو اٹارنی جنرل نے کہا سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔