ایک محفل میں دلیل اور ردِ دلیل کے ساتھ گرماگرم بحث ہوئی۔ محفل میں کئی دوستوں کے ساتھ ،اسد محمد خاں صاحب بھی موجود تھے، بلکہ گفتگو کا آغاز انھی کے دو معروف کرداروں، یعنی مئی دادا اور باسودے کی مریم کے حوالے سے ہوا تھا، بعد ازاں بابو گوپی ناتھ، موذیل، لاجونتی، داؤجی، نعیم، میاں امجد، سیّد بسم اللہ شاہ، بوجی، مجو بھائی، نمبردار، بگل والا تک کتنے ہی کرداروں کو حوالے اور دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ حتمی نتیجہ تو خیر طے نہیں ہوا (ویسے ادب میں ریاضی کی طرح کا حتمی نتیجہ درکار بھی نہیں ہوتا)، لیکن خلاصہ اس گفتگو کا یہی تھا کہ، ہمارے یہاں ادب میں اب ایسے کردار نہیں ملتے جو اپنی ذات، وضع، رویے اور مزاج یا انداز کی وجہ سے قاری کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیوں ختم ہوگئے ہمارے ادب سے ایسے کردار؟
بہ ظاہر سیدھے سادے سے اس سوال پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اس کا جواب آسانی سے اور براہِ راست نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ جواب کی جستجو میں کتنے ہی پہلو پیشِ نظر رکھنا اور کتنے ہی اسباب و مسائل کی تفتیش ضروری ہے۔
مثال کے طور پر،ادب اور ادیب اپنے زمانے اور اردگرد کی زندگی سے خام مواد حاصل کرتے ہیں۔ غور کیجیے، آپ کو اپنے اطراف میں اب ایسے کتنے کرداروں کا تجربہ ہوتا ہے، جیسے اس سے پہلے کے ادوار کے ادب نے آپ کے حافظے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے زمانے میں زندگی کا تجربہ اِس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اُسے تہ در تہ دیکھے بغیر اس کی معنویت اور انسانی احساس پر اُس کے اثرات کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔
پھر یہ کہ گزرے وقتوں میں فرد اکائی کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ اکائی ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں پراپنے وجود کا اثبات کرتی تھی۔ ادب کا سروکار اسی وجود کی تفتیش سے ہوتا تھا۔ اب یہ اکائی ٹوٹ چکی ہے۔ گویا اس دور میں فرد کی انفرادی شناخت کا بحران ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ افراد ہی نہیں خود تہذیبیں شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔ میکانکی یکسانیت (جو دراصل شناخت کا مٹ جانا ہے) اس گلوبل ولیج کا ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔
دنیا،اس کے سماج اور تہذیبوں پر اہلِ سیاست (اہلِ اقتدار) کا تصرف ہے۔ وہی ان کی صورت گری کرتے ہیں۔ یہ کون سی نئی بات ہے؟ دنیا تو ہمیشہ سے اہلِ اقتدار کے ہاتھ میں رہی ہے، اور ان کے مقاصد یا اہداف بھی کم و بیش یکساں رہے ہیں۔ تاہم اہلِ سیاست و اقتدار میں بھی پہلے ایسے لوگ ہوتے تھے جن کے نزدیک اصول اور کردار مقدم سمجھے جاتے تھے۔ جب کہ اس دور کی سیاست اور اقتدار کا دارومدار جن عناصر پر ہے اور اُن کے لیے جو عوامل اہمیت رکھتے ہیں، اُن کو بروے کار لانے کے لیے اصول و کردار کو سب سے پہلے بالاے طاق رکھا جاتا ہے۔ اب چوںکہ سیاست ہی معاشرے کی صورت گری کرتی ہے، اس لیے جیسی وہ اپنی فطرت میں ہے، ویسے ہی سانچے میں معاشرے کو ڈھال دیتی ہے۔
یہ مادّیت کے غلبے کا دور ہے۔ انسانی زندگی کے تجربات، واقعات، معاملات اور مطالبات تک جس طرف نگاہ کیجیے، مادّیت ہی مادّیت کا منظرنامہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہی آج انسان کا حال و قال ہے، اور بہ ظاہر یہی کچھ انسانیت کا مستقبل۔ انسانی زندگی میں غیر مادّی بھی کچھ ہوتا ہے، اس کا تصور تک مٹتا جارہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ادب، بلکہ سارے فنونِ لطیفہ یا وہ مثبت کام جن کا انسان اور اس کی تہذیب سے تعلق قدری نوعیت کا ہوتا ہے، وہ تو سراسر غیر مادّی ہوتے ہیں۔ ایسے میں کیا ادب اور کیا ادب کے پیش کیے ہوئے کردار؟
صرف یہی نہیں، اس فہرست میں ایسے ہی کچھ اور مسائل و حقائق کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ تاہم آج اگر ادب میں کردار کے فقدان کا شکوہ کیا جارہا ہے تو وہ بے جا ہرگز نہیں ہے، لیکن یہ ایک ایسا سنجیدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے جس کے متنوع اسباب، محرکات اور مسائل ہیں۔ ایک بات پر اور بھی غور کیے لیتے ہیں۔ سرِدست جن عناصر پر بات کی گئی، وہ تو سب کے سب خارجی نوعیت کے ہیں، یا کم سے کم اُن کی بنیاد تو کہیں خارج میں ہے۔
کیا اس مسئلے کے پورے سیاق میں کوئی ایک بھی داخلی عنصر کارفرما نہیں ہے؟ یعنی سادہ سے الفاظ میں ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے ادب میں اب جو کردار نایاب یا ناپید ہوتے جاتے ہیں، تو کیا اس کی سر تا سر ذمے دار دنیا ہے، خود ادیب کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے؟ بس یہاں ّحدِ ادب ہے۔ سو، عافیت تو خاموشی میں ہے، لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ ایسے سادہ سوال جب ایک بار منہ پھوڑ کر پوچھ لیے جائیں تو پھر اُن سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ ایسے ہی سوالوں میں سے ایک ہے جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ آدھا جواب تو خود سوال کے اندر ہوتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ جو ہم ادب میں کردار کا بحران یا فقدان دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیاد فی الاصل ادیب کے کردار کے فقدان پر ہے۔ ادب میں ایسی phenominal تبدیلی اس وقت تک مکمل طور پر آہی نہیں سکتی، جب تک ادیب کا جوہرِ ذات وقت، حالات، تہذیب اور زمانے کے بدلتے ہوئے رویوں کے خلاف مزاحمت کرتا رہتا ہے۔ ادیب کا وجود اور تہذیب و سماج میں اس کا کردار دراصل اُس کے جوہرِ ذات پر منحصر ہوتا ہے،جب تک یہ قائم رہتا ہے، ادیب اور اُس کا فن دونوں مستحکم رہتے ہیں۔ بڑے سے بڑے تہذیبی، سماجی اور سیاسی بحران کو ادیب نہ صرف خود جھیل جاتا ہے، بلکہ معاشرے کی ناؤ کو بھی پار لگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
آج ہم اپنے ادب میں کردار کا جو فقدان دیکھ رہے ہیں، وہ دراصل ہمارے ادیب کے کردار کا بحران ہے،جو اس لیئےپیدا ہواکہ دنیا اُسے لبھانے لگی۔ ادیب کے اندر ایک درویش ہونا چاہیے جو دنیا اور اس کی آسائشوں کو برپشم گردانتا ہو۔ اس کے جاہ و منصب کو پرِکاہ سے بڑھ کر نہ جانتا ہو۔ اس کا بے نیاز مزاج دنیا کے عیش و عشرت کو پاؤں کی دھول مانتا ہو، اور اس کی شہرتِ عام اور بقاے دوام کی اصلیت کو پہچانتا ہو۔
اگر یہ نہ ہو تو وہ خود نگر و خود بیں نہیں ہوسکتا۔ بات یہ نہیں کہ ادیب مجہول الاحوال یا نرگسیت کا شکار ہو۔ نہیں، یہ نرگسیت، انانیت یا خود پسندی ہرگز نہیں ہے۔ یہ خودنگری تو اس کے جواہرِ ذات کا داعیہ اور اس کے تحفظ کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے کام، اس کی تخلیق یا اس کے فن سے بڑھ کر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر اس کے لیے دنیا بڑی ہوجائے اور فن چھوٹا پڑ جائے تو ادیب پھر ادیب نہیں رہتا، بھٹیارا، کنجڑا یا چمار بن جاتا ہے۔ تب وہ ادب تخلیق نہیں کرتا، جذبات سینکتا، ضمیر اینٹھتا اور احساسات گانٹھتا ہے اور بس۔
مستثنیات ہر دور اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں، ان سے بحث نہیں۔ وہ ہمارے یہاں بھی ہیں، لیکن یوں دیکھیے تو کیا ہمارے ادبی منظرنامے کا غالب نقشہ یہی کچھ نہیں دکھا رہا۔ ہم ادیب شاعر، اعلیٰ اخلاق اور زندہ اقدار کی باتیں کرتے اور اہلِ سیاست کی فریب کاریوں اور ہوس پرستی کو قابلِ نفرت گردانتے ہیں، لیکن دوسری طرف وزیروں اور گورنروں کو اپنی تقریبات میں بھی بلاتے ہیں۔ ان کے ساتھ بنائی گئی تصویریں فیس بک پر ٹانکتے اور اس پر اتراتے ہیں۔ جاہ و منصب اور عشرت و عیش کا کوئی موقع ہاتھ آئے تو اس کے لیے مرمٹتے ہیں۔ کوچۂ یار سے نہیں کوچۂ زر سے بلاوے کے خواب دیکھتے ہیں۔
کسی طرح وہاں پہنچ جائیں تو ہزار رسوائیاں سمیٹ کر بھی وہاں سے رخصت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ مفاد و منفعت کا معاملہ ہو تو پھر اُسی در پر سر کے بل جانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جہاں سے دھتکار کر نکالے گئے ہوں۔ ہماری زبان ولی کے لہجے میں کلام کرتی ہے اور دل کی دھڑکنوں میں ہوسِ زر گونجتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ہم صرف خود کو پارسا ،دوسروں کو دنیا طلب اور جاہ پسند جانتے ہیں۔ یہ ہے وہ منظر جس کا ہم ناگزیر حصہ، لازمی جزو ہیں۔ سو یوں ہے ادب میں کردار کا فقدان۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ جو ادب میں ہم کردار کی تلاش میں سرگرداں ہیں، یہ بھی صرف دنیا دکھاوا ہے یا پھر واقعی اس داخلی بحران کی جان لیوا خلش کے زیرِ اثر ہے؟