• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سجاد عباسی

گزشتہ تین صدیوں سے اُردو غزل نے برصغیر کے باسیوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ اور اب دُنیا کے جن جن علاقوں میں برکوچک کے باسی جہاں جہاں آباد ہوئے ہیں وہاں بھی اُردو شاعری اپنا جادُو جگا رہی ہے۔ بلاتفریق مذہب و ملت اُردو والے شاعری کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اسی لئے دُنیا بھر میں مشاعروں کی روایت زندہ ہے۔ مشاعرے، محفلِ سخن، ہماری ثقافت کا سب سے خُوبصورت، جاندار، رنگین اور دلکش زاویہ ہیں کہ یہاں بات دِل سے نکل کر براہ راست دِل تک پہنچتی ہے۔ اور داد و بیداد کا فیصلہ نقد ہوجاتا ہے۔

پوری دُنیا کی طرح برطانیہ نے بھی اس روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہاں بسنے والے شعراء و شاعرات نے اپنے فکر و فن سے اس خطّۂ اَرض کو گلزار بنا دیا ہے اور اس گلزار کی خُوشبو سے مشام جان معطر کرنے والے فنکار دُنیا کے مختلف ملکوں سے یہاں مسلسل اور مستقل آتے ہیں اور برطانیہ کو اُردو کا تیسرا بڑا مرکز ہونے کا اعزاز اور وقار عطا کرتے ہیں۔ برطانیہ کے شعراء و شاعرات میں ایک معروف اور مقبول نام جناب باسط کانپوری کا بھی ہے۔ 

باسط کی شاعری میں نہ فلسفے کی موشگافیاں ہیں نہ حیات و کائنات کے اُلجھے ہوئے مسائل۔ انھوں نے تو آسان، سادہ، دلکش، دلفریب، دلچسپ اور دِل نشیں انداز میں اپنے سُننے اور پڑھنے والوں سے تخاطب کیا ہے۔ اور یہ خطاب اتنا جاندار ہے کہ جب وہ مشاعروں میں غزل سرا ہوتے ہیں تو کیف و کم کی ایسی فضا پیداہو جاتی ہے کہ کچھ دیر کے لئے غمِ زمانہ بھی پس منظر میں چلا جاتا ہے اور ہر دِل سےآواز آتی ہے:

وہ پڑھیں اور سُنا کرے کوئی

باسط کی غزل کے سحر نے مشاعروں کو ایک نئی حرارت بخشی ہے۔ ایک نیا سرورعطا کیا ہے اور غزل کا ایک منفرد زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کی غزل کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمایئے:

اَب مسافر کو ملے یا نہ ملے منزلِ شوق

اِک دیا ہم نے بہرحال جلا رکھا ہے

لوٹ آئیں گے یہ اُمید ہے باسطؔ اُن سے

دِل کا دروازہ ابھی ہم نے کھلا رکھا ہے

……٭٭……٭٭……

سُنا ہے وہ بھی عیادت کو میری آئے تھے

حیات کا مگر افسوس تار ٹُوٹ گیا

……٭٭……٭٭……

کہیں وہ آ کے مٹا دیں نہ انتظار کا لُطف

عجیب شے ہے جسے انتظار کہتے ہیں

……٭٭……٭٭……

موت و زیست میں باسطؔ فرق صرف اتنا ہے

اِک چراغ بجھتا ہے اِک چراغ جلتا ہے

باسط کی غنائیت، لہجے کی مٹھاس، آواز کے سرور اور انداز کی حلاوت نے ان کی غزل کو قبولِ عام کی سند دی ہے۔ معروف گلوکارہ رادھیکا چوپڑہ نےباسط صاحب کی غزلیں گا کر ان کی غزل کے سرور کو دوآتشہ کر دیا ہے۔ باسط کی شاعری کا محور اوّل و آخر غزل ہے اور یہ غالباً ان کے خاندانی پس منظر اور لکھنؤ اور کانپور کی دین ہے۔ 

اپنے اَجداد ساحل بلگرامی اور ہوش بلگرامی کا فیض ان سے غزل ہی کہلوا سکتا تھا۔ ایسی غزل جس کے دامن میں روایت کے پُھول ہوں اور جذبے کی کلیاں، باسط کی غزل اِنسان کی ناقدری کا نوحہ ہے نہ انصاف کی پامالی کا مرثیہ۔ وہ اپنے مدھم لہجے میں دِل کی باتیں کرتے ہیں جو براہِ راست دِلوں تک پہنچتی ہیں۔ وہ چاہت کے زمانے کو بھی پُھولوں کے توسط سے یاد کرتے ہیں:

چاہت کا زمانہ بھی کیا خوب زمانہ تھا

سُوکھے ہوئے پُھولوں کو دیکھا تو بہت رویا

زَرپرستی، دُنیا داری، ہنگاموں اور سماجی ناہمواریوں کے دور میں باسط کی غزل نے محبت کا اِک گلزار کھلا رکھا ہے… اللہ کرے زورِ جنوں اور زیادہ۔