• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبستانِ شعر: انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

……علامہ اقبال ……

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں

جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں

پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا

جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی

نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں

نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی

نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے

ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں

امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو

یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادھے بھولے بھالے ہیں

مرے اشعار اے اقبالؔ کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو

مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ دردانگیز نالے ہیں

……٭٭……٭٭……

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

منصُور کو ہُوا لبِ گویا پیامِ موت

اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

میں انتہائے عشق ہوں، تُو انتہائے حُسن

دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

عذر آفرینِ جرمِ محبّت ہے حُسنِ دوست

محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی

چھُپتی نہیں ہے یہ نگہِ شوق ہم نشیں!

پھر اور کس طرح اُنھیں دیکھا کرے کوئی

اَڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طُور پر کلیم

طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

نظّارے کو یہ جُنبشِ مژگاں بھی بار ہے

نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

کھُل جائیں، کیا مزے ہیں تمنّائے شوق میں

دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی