• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد رفیع الدین مجاہد

“ن۔۔۔۔۔نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔! اوں۔۔۔اوں۔۔۔۔ مجھے عیدی کے پورے پیسے چاہیے‘‘ دس سالہ رافع یہ کہتا ہوا بس روئے جا رہا تھا۔

” بیٹا! عیدی کے پیسے سب بہن بھائیوں میں تقسیم ہوں گے۔ تم اکیلے وہ پیسے کیسے لے سکتے ہو؟ ” امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔“ ن۔۔۔ نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔ مہمانوں نے عیدی کے پیسے مجھےدیے تھے۔ ایسا نہیں کہا تھا کہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی دینا‘‘ وہ بولا۔ ” بیٹا! تم مہمانوں کے سامنے آ جا رہے ہو، اچھی اچھی باتیں کر رہے ہو۔ اس لیے جو مہمان عید ملنے آرہے ہیں وہ تمہیں ہی عیدی دے رہے ہیں۔ تم سب سے چھوٹے ہو نا!” ابو نے سمجھایا۔ ” اسی لیے تو جب سب مجھے ہی عیدی دے رہے ہیں تو وہ میری ہی ہوئی نا‘‘۔ 

اس نے پھر کہا۔ اس کے دونوں بہن بھائی بھی وہیں موجود تھے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔’’داداجان! دادی جان! آپ ہی سمجھائیے نا امی ابو کو،رافع نےدادادادی کے پاس جا کر کہا۔ ” بیٹے! دے دو نا سارعیدی جب وہ مانگ رہا ہے، بچہ ہی تو ہے۔ بعد میں سمجھا کر واپس لے لینا‘‘۔ دادا نے کہا۔’’ میں دے بھی دوں! لیکن آخر یہ اتنے پیسوں کا کرے گا کیا؟” رافع کے ابو نے داداسے کہا۔ ” بے فضول کے کھلونے اور مٹھائیاں لے کر آئے گا اور کیا کرے گا؟‘‘اس کی امی بولیں۔ ” نئیں۔۔۔نیئں! مجھے ان پیسوں سے بہت کام ہے۔‘‘اس نے اتنی سادگی سے کہا کہ سب ہنس پڑے۔ ‏ ” آخر ان پیسوں کا ایسا کون سا کام آن پڑا میرے لاڈلے پوتے کو!؟” 

دادا جان نے اسے بڑے پیار سے گود میں بٹھا کر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ” آپ سب لوگ باتیں کر رہے تھے نا کہ بہت زیادہ مہنگائی ہوں گئی ہے غریبوں کوپیٹ بھر کھانا نہیں مل رہا تھا۔‘‘ ” توپھر؟” داداجان نے تجسس سے پوچھا۔ وہ داداجان کی گود سے اترگیا اور کہا۔ ” میں عیدی کے ان پیسوں سے ڈھیر سارا کھانا بنا کر غریبوں میں بانٹوں گا تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی ساتھ لوں گا۔” وہ ایک عزم سے بولا۔ ” امی! آپ کھانا بنا کر دیں گی نا!؟ آپی، بھیا آپ دونوں میرے ساتھ کھانا بانٹنے چلیں گے نا۔۔۔۔؟ ابو! آپ ہمیں جانے دیں گے نا!؟‘‘ وہ سب کی طرف باری باری دیکھتا ہوا ہر ایک سے پوچھتا گیا۔ ‏ تھوڑی دیر تک تو کوئی بھی کچھ نہیں بولا، پھر اچانک اس کے ابو نے لپک کر اسےگود میں اٹھا لیا۔ ان پر جیسے رقت طاری ہونے لگی تھی۔

 ”اگر ایسا ہے میرے بیٹے تو ایک ہزار روپے میری طرف سے اور ملیں گے۔‘‘اسے شاباشی دیتے ہوئے بولے۔ ” میں بھی ایک ہزار روپے دوں گی میرے بچے!” اس کی امی انتہائی پیار بھرے انداز میں بولیں۔ ” میرے بھی ایک ہزار!” دادی جان نے کہا۔ ” اور میں تو پورے پانچ ہزار روپے دوں گا۔ اس بار کی پنشن کا ایک حصہ تمہارا!” داداجان نے کہا۔ ” ہماری عیدی کے پیسے بھی تمہارے ۔” “اورگلک میں جمع پیسے بھی تمہارے۔‘‘

بہن بھائی نے کہا۔ “پھر تو میرے پاس ڈھیر سارے پیسے جمع ہو جائیں گے! ”رافع نے تھوں کے اشارہ کرتے ہوئےخوشی سے چلاتے ہوئے کہا۔ ” میں اپنے دوستوں کو یہ خوشخبری سنا کر آتا ہوں۔” وہ جانے ہی لگا تھا کہ اس کے ابو نے اسے روکا۔ ‘‘ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔!” ” جی ابو!” اس نے رک کر پوچھا۔ ” بیٹا! زیادہ شور شرابہ نہیں کرنا، نیکی کا کامدکھاوے کے لیے نہیں ہوتا۔ ” ابو نے کہا۔ ” اوہ! میں تو بھول ہی گیا تھا۔ ’’میں اس بات کا خیال رکھوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ خوشی خوشی باہر نکل گیا۔ سب اسے محبت سے دیکھ رہے تھے۔