ابو عبید
’’عیدمبارک امّی جان! اب جلدی سے شِیرخُرما دے دیں‘‘ ، ننّھے میاں عید کی نَماز پڑھ کر آ چکے تھے سب سے عید ملنے کے بعد اب کچن میں امّی جان کے پاس کھڑے تھے۔
’’خیر مبارک بیٹا‘‘۔سفید کُرتا شلوار میں ننّھے میاں خوب چمک رہے تھے ، امی جان نے پہلے تو ماشاء اللہ کہا پھر پیار سے بولیں’’ آپ لاؤنج میں اپنے ابو جان کے پاس جاکر بیٹھیں ، میںابھی لاتی ہوں۔
امّی جان شِیر خُرما لائیں تب ہی ابو کے فون کی بیل بجی ، ابو نے فون ریسیو کیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کہتے ہوئے کال کاٹ دی،’’آپ پریشان نہ ہوں میں ابھی آپ کی طرف آتا ہوں۔‘‘
ابو کے فون رکھتے ہی دادی بولیں،’’خیریت ہے بیٹا ، کس کا فون تھا‘‘؟’’جی وہ برابر والے جنید صاحب کا فون تھا ، کہہ رہے تھے کہ آج صبح سے بجلی نہیں آ رہی ان کے گھر ، پتا نہیں کیا خرابی ہوگئی ہے ، میں ذرا دیکھ کر آتا ہوں ،‘‘ اتنا کہہ کر ابوجانے کے لئے اٹھے تو ننّھے میاں فوراً کہنے لگے ،’’ ابوجان! آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کو جُھولے دِلوانے لے جاؤں گا۔‘‘
’’جی جی بیٹا مجھے یاد ہے ، بس! میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں پھر چلیں گے، تب تک آپ شِیرخُرما کھائیں ، پورا پیالہ ختم کرنا ہے میرے بیٹے کو‘‘، ابو نے مسکراتے ہوئے کہا اور چلے گئے۔
ننّھے میاں شِیرخُرما ختم کر چکے لیکن ابو نہیں پہنچے ، کافی دیر انتظار کرتے رہے، آخرکار ٹی وی آن کیا بچوںکے لیے عیدپر پروگرام آرہا تھا، ننھے میاں دلچسپی سے پروگرام دیکھنے لگے۔
کافی دیر بعد ابو واپس گھر آئے تو ننھے میاں جو ٹی وی دیکھتے دیکھتے سب کچھ بھول چکے تھے ابو کو دیکھتے ہی انہیں یاد آیا کہ آج تو جھولاجھولنےکے لیےباہر جانا تھا۔ اتنے میں ابو ان کے پاس پہنچ کر کہنے لگے ’’ چلو بیٹا جھولاجھولنے‘‘۔ ’’مجھے اب آپ کے ساتھ نہیں جانا آپ نے میری عید پھیکی کردی ۔‘‘ ننھے میاں نے رُوٹھے لہجے میں کہا۔’’ پھیکی عید؟ ننھے میاں کی امی، کیا آپ نے شیرخرماےمیں چینی نہیں ڈالی تھی؟ابو نے مِزاحاً کہا ۔’’ ابو جان میں صبح سے آپ کا انتظار کررہا ہوں اور آپ مجھے چھوڑ کر کسی اور کے کام میں لگ گئے اور اتنی دیر بھی لگادی ، ننھے میاں رونی صورت بنا کر بولے۔
بیٹا پہلے آپ سنیں تو کہ مجھے دیر کیوں ہوئی ، پہلے تو الیکٹریشن ہی نہیں مل رہا تھاساری دکانیں بند تھیں ، آخِر کار ایک الیکٹریشن کو اس کے گھر سے بلایا ،مگر بجلی کی خرابی اسے بھی پتا نہیں چلی تو اس نے ہمارے گھر سے ایک تار کے ذریعے بجلی کا کنیکشن جوڑا ،تب جا کر ان کے گھر پنکھے چلنے لگے‘‘۔ ابو نے اپنی بات ختم کی تو ننّھے میاں جلدی سے بولے’’لیکن مدد بعد میں بھی تو ہو سکتی تھی‘‘؟
’’بیٹا! جنید صاحب ہمارے پڑوسی ہیں ، اتنی گرمی میں ان کے گھر پنکھا بھی نہیں چل رہا تھا ، کیا یہ اچھی بات تھی کہ ہم خود تو ایئر کولر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھائیں اور پڑوسی تکلیف میں ہو ، ویسے بھی کچھ دن پہلے آپ ہی تو بتارہے تھے کہ اچھا پڑوسی وہ ہوتا ہے جو اپنے پڑوسیوں کی مدد کرتا ہے ، ابو نے ننّھے میاں کو ان کی بات یاد دِلائی تو وہ نرم پڑ گئے۔
یہ دیکھ کر ابو جان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،کہ ’’پڑوسی کی مدد اسے صراط مستقیم یعنی سیدھے اور سچے راستے کی طرف بھی لا سکتی ہے ، اب آپ کیا کہتے ہیں کہ مدد کب کرنی چاہئے جب پڑوسی مشکل میں ہو یا بعد میں اپنے کاموں سے فارغ ہو کر‘‘؟ ابوجان نے ننھے میاں سے سوال کیا۔ انہوںنے جواب دیا’’ نہیں ابو جان! مدد تو اسی وقت کرنی چاہئے جب کسی کو ضرورت ہو بعد میں کرنے کاکیا فائدہ! شاباش اب جلدی سے ریڈی ہو جائیں آپ کی عید میٹھی بناتے ہیں۔ ابو جان نے مسکراتے ہوئے کہا تو ننھے میاں دل ہی دل میں پلان بنا رہے تھے کہ آج تو میں سارے جُھولے جُھولوں گا۔