• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال کے آخر میں حاصل ہونے والے مال پر زکوٰۃ کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: میں ہر سال اپنے مال اور بیوی کے زیورات کی زکوٰۃ رمضان میں ادا کرتا ہوں، اس سال میں نے اپنا مکان فروخت کردیا ہے اور مکان کی رقم رمضان سے 15 دن پہلے ملی ہے۔ میری نیت یہ ہے کہ اس رقم کو کاروبار میں لگاکر کچھ عرصہ بعد دوبارہ مکان خریدوں گا، کیا اس رقم پر زکوٰۃ فرض ہے ؟(سید محمد عومان ، کراچی)

جواب: آپ چونکہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں اور رمضان المبارک میں اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، لہٰذا زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاریخ سے کچھ وقت پہلے بھی اگر مزید مال آپ کے پاس آیا تو اُس پر بھی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، مال کے ہر ہر حصے پر علیحدہ سال گزرنا شرط نہیں ہے۔

شیخ الاسلام علامہ ابوبکر بن علی بن محمدالحداد یمنی مُتوفّٰی800ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جو شخص مالکِ نصاب ہے ،اگر درمیان سال میں کچھ اور مال اُسی جنس کا حاصل کیا، اُسے پہلے سے موجود مال میں ملا کر اُس کی زکوٰۃ ادا کرے، خواہ وہ مال اُس کے پہلے مال سے(نمو پاکر) ملاہو یا میراث یا ہبہ یا کسی اور جائز ذریعے سے حاصل ہوا ہو ، شرط صرف یہ ہے کہ اُسی جنس سے ہو، (الجوہرۃ النّیّرۃ ،ص:173)‘‘۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ سال کے وسط میں جو بھی حاصل شدہ ہو ،خواہ ہبہ کی صورت میں ہو ،شراء ،میراث یا وصیت کی صورت میں ہو، اُسے ہم جنس نصاب میں شامل کیا جائے گا ،پس حولِ اصل کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اگر کوئی شے سال کے اختتام سے حاصل ہوئی خواہ ایک دن ہی پہلے ہو ، اُسے (پہلے سے موجود نصاب میں) ملایا جائے گا اور تمام (مال) کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد 2،ص:288)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ہر مال پر (خواہ وہ نقد رقم ہو یا سونا چاندی کی صورت میں ہو یا صنعت و تجارت کا مال ہو) سال گزرنا زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے شرط نہیں ہے، اگر مال کے ہر جُزو پر سال گزرنے کی شرط کو لازمی قرار دیا جائے تو تاجر حضرات کے لیے زکوٰۃ کا حساب نکالنا (Assessment) عملاً ناممکن ہوجائے گا، کیونکہ مال کی آمد و خرچ کا سلسلہ روز جاری رہتا ہے، بلکہ تنخواہ دار آدمی بھی ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ پس انداز کرتا ہے، لہٰذا مال کے ہر حصے کی مدت الگ ہوتی ہے۔ 

دورانِ سال شامل ہونے والے مال کا الگ سال شمار نہیں کیاجاتا ،بلکہ درمیانِ سال میں حاصل ہونے والامال جتنا بھی ہو ،جب بھی شامل ہو ،ا س کا وہی سال ہے ،جو بنیادی نصاب کاسال ہے۔ بشرطیکہ درمیان میں حاصل شدہ مال، مالِ سابق کی جنس میں سے ہو۔ مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں زکوٰۃ کی تشخیص کی مقررہ تاریخ سے چند دن قبل بھی اگر مال ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں آجائے تو اسے پہلے سے موجود مال میں شامل کرکے کل مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر زکوٰۃ ادا کرنے کی مقررہ تاریخ سے پہلے آپ کو مکان کی قیمت مل گئی تھی ،تو دیگر مال میں شامل کرکے آپ کو اس کی زکوٰۃ دینی ہوگی۔

( وَاللہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ )