• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ریکارڈ ساز نوجوان فٹبالر منیر آفتاب معاشرے کی بے بسی کی بھیٹ چڑھ گیا

ملکی فٹ بال کی تاریخ میں 26اپریل2023ء انتہائی دکھ اورتکلیف کے دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین کپتان منیر آفتاب عرف منا صرف 26سال کی عمر میں کسمپرسی اور حکومتی اداروں کی عدم توجہی کی باعث جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ کم عمری میں ریکارڈ عالمی مقابلوں میں قومی فٹبال ٹیم کی قیادت کرنے والے گولڈ میڈلسٹ فٹبالر گردے فیل ہونےکے باعث دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہوگئے تھے۔ مینر کی حالت بگڑنے پر عید الفطر سے چند روز قبل انہیں ایس آئی یوٹی میں لیجایا گیا جہاں وہ آخری سانسوں تک وینٹی لیٹر پررہے۔

گزشتہ سال نومبر میں ان کو گردوں میں تکلیف کے بعد کی بیماری کا علم ہوا ورنہ اس سے قبل وہ ایک عام صحت مند نوجوان کی طرح نہ صرف فٹ بال کھیل رہے تھے بلکہ اپنے معمولات زندگی بھی انجام دے رہے تھے ۔ نیشنل بینک کی ٹیم سے فارغ کئے جانے اور جان لیوا بیماری کے باعث انتہائی پریشانی کے عالم میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرحوم نے لواحقین میں بیوہ، تین معصوم بیٹیوں اور والدین کو سوگوار چھوڑا۔ مرحوم کی نمازہ جنازہ بغدادی مسجد، سیفی لائن میں جبکہ تدفین میوہ شاہ قبرستان میں ہوئی۔ ان کے جنازے میں شریک ہر فرد کی آنکھیں ایک جوان اور محبت کرنے والے کی موت پر اشکبار تھیں۔ 

منیر کے انتقال سے 9 دن قبل 16 اپریل 2023ءکو راقم نےان کے گھر پر ملاقات کی تو ان کی حالت دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ منیر کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے، اس موقع پر بھی وہ علاج معالجے، معصوم بچیوں اور گھر کے اخراجات کےحوالے سے بہت زیادہ فکر مند تھےاور حکومتی معاونت کے منتظر تھے، لیکن حکومتی ایوانوں میں بیٹھے اور صاحب ثروت افراد کی بے حسی ایک بار پھر بازی لے گئی اور فٹ بال کی دنیا میں کئی اور معرکے انجام دینے کی خواہش لئے منیر نے اپنا سفر تمام کیا۔

لیاری سے تعلق رکھنے والے کئی عظیم فٹ بالر جن میں علی نواز، عبداللہ راہی،مولا بخش گھوٹائی، غفور مجنا، خمیسہ بوس، غلام عباس بلوچ، استاد عمر، حسین کلر، محمدرحیم بلوچ، جان محمد، عبداالقاسم، عبدالطیف بلوچ اور دیگر شامل ہیں، نے قومی ٹیم میں شامل ہونے کے کچھ عرصے بعد اپنےکھیل سے اپنی پہچان بنائی لیکن منیر آفتاب وہ باصلاحیت کھلاڑی تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں2009ء میں ایران میں ہونے والےانڈر 13فٹ بال فیسٹول میں قومی ٹیم کی قیادت کی، انڈر 14،15اور 16میں بھی عالمی مقابلوں میں قومی ٹیم کی قیادت کی۔ بھارت کے خلاف ساف فٹ بال چیمپئن شپ میں پاکستانی ٹیم نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ نیشنل بینک نے 12 سال قبل اس وقت کے بہترین نوعمر کھلاڑیوں کو وظیفہ کے طور پر ملازمت دی اور انہیں ٹیم کا حصہ بنایا، اسپورٹس مین وزیراعظم کے دور میں مختلف ڈپارٹمنٹس نے اپنی ٹیمیں بند کیں۔ 

ان میں نیشنل بینک بھی شامل تھا جس نے کئی نوجوانوں کھلاڑیوںکو فارغ کیا ۔ 2015ء میں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کابدترین دور شروع ہوا اور اس وقت فیڈریشن کے انتخابات میں فیڈریشن دو واضح حصوں میں تقسیم ہوئی اور پاکستانی فٹ بال کا بیڑہ غرق ہوگیا۔ عہدوں کی جنگ نے پاکستانی فٹ بال کو کئی دہائی پیچھےدھکیل دیا اس کا سب سے بڑا قومی نقصان فٹ بال کی عالمی تنظیم کی جانب سے پاکستان پر عالمی پابندیوں کے باعث نئے ابھرتے ہوئے قومی کھلاڑیوں کا ہوا اور ایک بہترین اور مضبوط ٹیم بننے سے پہلے ہی عالمی مقابلوں میں عدم شرکت کے باعث ان کا کیریئر تباہ ہوگیا۔

مشکل وقت میں قومی اور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ انسانیت کی بھلائی کیلئے کام کرنے والے مخیر حضرات بھی اس قومی ہیرو کی مدد نہ کرسکے۔ منیر کی بیماری کے باعث پورے گھر والے، رشتہ دار، محلے والے، یار دوست اور عمدہ کھیل کے باعث ان سے محبت کرنے والے ان کی شدید علالت کے باعث پریشانی سے دوچار رہے۔ منیر کے والدان کی صحت یابی کیلئے پرامید تھے کیونکہ ان کی پیدائش کے بعد ان کی والدہ کے بھی دونوں گردے ناکارہ ہوگئے تھے لیکن وہ بیٹے کا گردہ ملنے پر آج بھی حیات ہیں۔ 

منیر کے والد نےنمائندہ جنگ کو بتایا تھا کہ منیر کی پیدائش کے بعد ان کی والدہ کے بھی دونوں گردے فیل ہوگئے تھے اور پانچ سال تک ان کا علاج چلتا رہا، انہوں نے بھی زندگی انتہائی کرب میں زندگی گزاری ،منیر کے بڑے بھائی نے انہیں اپنا ایک گردہ دیا اورایک ایک گردے کے ساتھ دونوں ماں بیٹے اس وقت بھی معمولات کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ان کے گھر والوں کو قوی امید تھی کہ منیر کے گھر میں ایک بار پھر ماں بیٹے کی کہانی ، بھائی اور بہن کی صورت میں انجام پائے گی ، منیر کی بہن کے میڈیکل ٹیسٹ ہوچکے تھے ان کا بلڈ گروپ میچ ہوگیا تھااور مختلف ٹیسٹ کے بعد امکان تھا کہ ایک بہن، بھائی کو اپنا گردہ دیکر اس کی زندگی کو جلا بخشنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن اس بار قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔

منیر آفتاب کی زندگی میں تو پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے بڑے بڑےسابق عہدیدران، این سی کمیٹی اور کھیلوں کے اداروں کو چلانے والے بااثر افرادنے خیریت دریافت نہیں کی لیکن اب ان کے انتقال کے بعد کیا شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے منیر کی صلاحیتوں اور قومی فٹ بال میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئےان کی معصوم بیٹیوں کی تعلیم اور گزر و اوقات کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھا سکیں گے؟ پاکستان فٹبال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی، فٹ بال عہدیداروں، فٹ بال لورزنےسابق قومی جونیئر فٹبال ٹیم کے کپتان منیر آفتاب کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سابق اسٹار کی موت پر پاکستان کے فٹبال برادری سوگوار ہے، فٹبال فیملی اس خوبصورت کھیل میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ راقم بھی 2009 ء میں ایران جہاں سے منیر نے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کیا تھا، اس ٹیم کا میڈیا منیجر تھا۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید