شیخ ایاز
عقاب اپنے نشیمن کی طرف لوٹ رہا ہے
وہ کوہسار کھیرتھر کی چوٹیوں پر کئی باراُڑا تھا
کئی بار اُس کے پروں نے سنگلاخ
چٹانوں پر سایہ کیا تھا
کئی بار اس نے تپتی ہوئی دھرتی کی
فضائے آتشیں سے نفرت کی تھی
اور جلتے ہوئے سورج کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تھا
کئی بار اس نے سانپوں پر جھپٹ کر
انہیں اپنے پنجوں سے چیر ڈالا تھا
اس سارے وقت میں اسے یاد بھی نہ تھا کہ
اس کا کوئی نشیمن بھی ہے
عقاب تھکتے تو نہیں ہیں۔ عقاب بوڑھے بھی نہیں ہوتے
ہاں! یہ اور بات ہے کہ سورج ڈوب رہا ہے
اور عقاب اپنے نشیمن کے طرف لوٹ رہا ہے
آرے زنداں کے جھروکے سے نہار کتنی
پیاری رات ہے گر رہی ہے
آسماں سے چاندنی کی آبشار
کر رہی ہے دو جہاں پر وار کوئل کی پکار
یہ ہوا یہ سامنے لمبی کھجوروں کی قطار
چاند بھی سیخوں سے تجھ کو جھانکتا ہےبار بار
ناچ سکتا ہے گھڑی بھر اپنی زنجیروںمیں یار
گارے پیارے یہ درو دیوار کب ہیں پائیدار
کتنی پیاری رات ہے
…… ساحر لدھیانوی……
تنگ آچکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
اللہ ر ے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم