• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی حکومت نے شیر خوار اور گھٹنوں کے بل چلنے والے بچوں کی خوراک سے متعلق پہلی بار تفصیلی ہدایت نامہ 2020ء جاری کیا تھا۔ یہ ہدایات ڈائٹری گائیڈلائنز ایڈوائزری کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر جاری کی گئی تھیں۔ اس ہدایت نامے میں جہاں دیگر کئی باتیں کہی گئیں، ان میں ایک اہم تجویز یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، شیر خوار بچوں کو پہلے چھ ماہ تک صرف ماں کا دودھ ہی پلایا جائے۔ ساتھ ہی، دو سال سے کم عمر بچوں کو کھانے میں قدرتی طور پر موجود شکر کے علاوہ چینی بالکل بھی نہ دی جائے۔ کمیٹی ایک دہائی میں دو مرتبہ غذائی رپورٹ جاری کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق، نصف سے زیادہ امریکی بالغان میں خوراک سے متعلق ایک یا اس سے زائد سخت بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ ان ہدایات میں کہا گیا ہے کہ 1980ء میں جب پہلی مرتبہ یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں، تب سے امریکی شہری ان پر عمل کرنے میں کہیں پیچھے رہے ہیں اور بیماریوں کی شرح عوامی صحت کے متعلق بڑی تشویش کے طور پر برقرار ہے۔

ابتدائی 1,000دن

یہ رپورٹ روایتی طور پر گھٹنوں کے بل چلنے والے اور ان سے بڑے بچوں کی سائنسی بنیادوں پر خوراک کو مدِنظر رکھتی ہے۔ تاہم گزشتہ رپورٹ میں اس کا دائرہ بڑھا کر شیرخوار بچوں تک کر دیا گیا تاکہ زندگی کے ابتدائی دور میں مناسب خوراک کے بارے میں بڑھتے ہوئے ثبوتوں کی عکاسی کی جائے۔

سفارشات میں کہا گیا ہے کہ زندگی کے شروعاتی ایک ہزار دنوں میں ملنے والی غذا نا صرف طویل مدتی صحت میں اپنا کردار ادا کرتی ہے بلکہ ذائقے کی ترجیحات اور کھانوں کی پسند نہ پسند کو بھی واضح کرتی ہے۔

جہاں ان ہدایات میں بچوں کے لیے ماں کے دودھ کو ہی بہترین غذا قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے بعد میں موٹاپے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے، وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ دستیاب نہ ہو تو شیرخوار بچوں کو آئرن فورٹیفائیڈ فارمولہ دودھ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ پیدائش کے بعد جلد ہی وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس شروع کر دینے چاہئیں۔

ان ہدایات میں کہا گیا ہے کہ چھ ماہ کی عمر کو پہنچنے پر بچےغذائیت سے بھرپور اورالرجیز کے سبب بننے والے کھانے مثلاً مونگ پھلی وغیرہ کھانا شروع کر سکتے ہیں، جبکہ شیر خوار اور گھٹنوں کے بل چلنے والے بچوں کو تمام غذائی گروپس میں سے چیزیں کھانی چاہئیں، خاص طور پر وہ جن میں آئرن اور زنک زیادہ ہو۔

امریکا کے برعکس، برطانیہ میں ماؤں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ جب تک بچے چاہیں انھیں دودھ پلایا جائے۔ برطانوی محکمۂ صحت (این ایچ ایس) نے اس سلسلے میں کوئی حتمی مدت مقرر نہیں کی کہ بچوں کو کب تک دودھ پلایا جائے۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ بچے کی زندگی کے پہلے چھ ماہ اسے صرف ماں کا دودھ پلایا جائے اور اس عرصے میں اسے کوئی اور خوراک یا مشروب، بشمول پانی، نہ دیا جائے۔

این ایچ ایس کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: بچے کے دوسرے سال اسے دوسری خوراک کے ساتھ ماں کا دودھ پلانا بہترین ہے۔ آپ اور آپ کا بچہ جب تک چاہیں، ماں کے دودھ پلانے سے ملنے والے فوائد سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ تاہم رائل کالج برائے اطفال کے ڈاکٹر میکس ڈیوی کہتے ہیں کہ دو سال کے بعد بھی دودھ پلاتے رہنے کے فوائد کے کم ہی شواہد ملتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’دو سال کی عمر تک بچے کو اس کی تمام غذائیت خوراک سے حاصل ہونی چاہیے، اس لیے اس کے بعد سے ماں کا دودھ پلاتے رہنے کا کوئی اضافی فائدہ نہیں ہے۔‘

تاہم کسی ماں کے لیے بچے کو دودھ پلانے کے مختلف عوامل اور مقاصد ہو سکتے ہیں۔ ان میں ملازمت، خاندان کی طرف سے تعاون اور اپنا ذاتی آرام اور سہولت شامل ہیں۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ ماں کا دودھ پلانے سے ماں اور بچے دونوں کو طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے بچے کو متعدی بیماریوں، دست، اور قے سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے جب کہ ماں موٹاپے اور دوسری بیماریوں سے بچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ماں کو چھاتی اور بیضہ دانی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔

ماں کی صحت

حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے ماہرین ہر ہفتے 12 اونس صحت بخش سمندری غذا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں جن میں ٹیلاپیا اور سالمن شامل ہیں تاکہ بچوں کی دماغی نشونما بہتر ہو سکے۔ ماں کا دودھ بچے کی صحت کے لیے تو ضروری ہے ہی لیکن اگر ماں بچے کو دودھ نہ دے پائے، یا درست انداز میں نہ دے پائے تو اس کی اپنی صحت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

حاملہ ہونے کے بعد سے لے کر بچے کی پیدائش تک ماں ایک ایسے عمل سے گزرتی ہے جس میں اسے شدید ذہنی اور جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے لیے بڑا چیلنج اپنا دودھ پلانا ہوتا ہے اور بعض اوقات مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل ماں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔

صحت سے مزید